زلفی گیسو تراش، مستا پاگل، سکھا فوجی اور جمہوریت


زلفی زلف تراش نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں چھوٹی سی میز پہ بڑا سا شیشہ رکھے فن ِآرائش گیسو کے وہ جوہر دکھاتا کہ لو گ کھنچے چلے آتے۔ حجام تو وہ بہت اچھا تھا لیکن اس میں ایک برائی تھی کہ وہ دیوار پہ گڑ لگاتا تھا۔ گڑ پہ مکھیاں بیٹھتیں، مکھیوں پہ بلی جھپٹتی اور بلی کو کتا دبو چ لیتا۔ یوں دو لشکروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی لیکن وہ مزے سے چرچر قینچی چلاتا رہتا۔ چہرے پہ پڑی جھریوں کے خاتمے، گرتے بالوں کی روک تھام اور رنگ گورا کرنے کہ ہزارہا اکسیر نسخے بھی اُسے ازبر تھے جن میں اکثر کا موجد وہ خود تھا لیکن بدنا م ہمیشہ افلاطون ،گوگل داس ،ہری چند اور حکیم بطلیموس ہو تے۔ تمہیدیں تو ایسی باندھتا کہ شکار خود بخود دامِ صیاد میں آ گرتا اور اچھا بھلا بندہ بھی اُلو بن جاتا۔

پچھلے دنوں میاں نتھا کی حجامت بنا تے بناتے بو لا ـ”میاں جی جانتے ہو چہرہ دل کا آئینہ ہو تا ہے اور تمہارا آئینہ تو برابر دھندلا پڑ رہا ہے ،سیاہی چھا رہی ہے۔ کچھ اس کی فکر کرتے ہو تو نسخہ بتائے دیتا ہوں۔ یوں سمجھ لو کہ بین الاقوامی نسخہ ہے۔ ا مریکہ نے جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم برسائے تھے تو سارا جاپان دُھنک کر تمہارے جیسا ہو گیا تھا۔ جاپانیوں کو اتنا صدمہ تباہی سے نہیں ہوا تھا جتنا انہیں سڑی ہو ئی سانولی رنگت سے پہنچا تھا۔ تب وہاں کی ایک بھلی مانس ملکہ نے یہ نسخہ ایجاد کیا اور آج دیکھ لو پورا جاپان اجلا اجلا اور نکھرا نکھرا ہے۔ تین گلاس کنواری گدھی کا دودھ لے کر اس میں چند قطرے زرد لیموں کے نچوڑنے ہیں۔ یونہی لیموں اپنا اثر دِکھانے لگے تو مغز بادام اور ہلدی پھینٹ کر اُس میں ڈال دینی ہے۔ تیس راتیں مسلسل لیپ کرنے سے چہرہ چاند جیسا نہ ہوا تو مجھے پکڑ لینا۔ نتھے میاں کا رنگ تو گورا کیا ہونا تھا البتہ پانچ سات گدھیوں سے لاتیں کھانے کے بعد وہ نتھا دود ھ گدھی ضرور مشہور ہو گیا تھا۔

زلفی تو کئی گنجوں کے سر پر گوبر تک تھپوا چکا تھا۔ پو رے گاؤں میں ایک بابا سُکھا ہی تھا جو اس کے داؤ پیچ میں نہیں آتا تھا۔ بابا سُکھا نے ربع صدی قبل فوج کو خیر باد تو کہہ دیا تھا مگر اس کی عادتیں آج بھی برسوں پرانی تھی۔ مہم جوئی، اڑیل پن اور انا پرستی اُس کی رگ رگ میں بھری تھی ،ضدی تو اتنا تھا کہ کسی با ت پہ اڑ گیا تو پھر جان تو جا سکتی تھی پر ضد نہیں۔ زلفی کہا کر تا تھا کہ جس کسی نے ایک دفعہ فو ج کی دال سُڑک لی ،وہ من وسلویٰ بھی کھا لے تو فوجی ہی رہتا ہے ،پیٹ سُکڑا ہوا ،جوتے پالش شدہ اور بال کٹے ہوئے۔ لیکن بابا سُکھا ہمیشہ سُنی ان سُنی کر دیتا اور زلفی کو کوئی جواب نہ دیتا۔ ابھی کل کی بات ہے سائیں مستا کو دور سے شیشے میں آتا دیکھ کر بابا سُکھا نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولا کہ کیسا کڑیل جوان تھا ،بے روز گاری نے دماغ کیا سٹکا کہ بیچارہ مستان علی سے مستا بن گیا۔ جونہی وہ نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں پہنچا تو زلفی نے چو ٹ لگائی کہ ایک پاگل دوسرے صبح شام۔۔۔۔ کون پاگل؟ کسے سناتے ہو پاگل؟ تو پاگل ،بابا سُکھا پاگل، گھڑونچی پہ پڑا وہ مٹکا پاگل، نیم کا یہ درخت پاگل ،اس کی ٹھنڈی چھاؤں پاگل ،پاگل ،پاگل سارا جہاں پاگل گیڑو اوہو اوہو اوہو۔۔۔۔ اپنی انگلیوں کی پوریں اپنے نر خرے پر مار مار کر وہ ابھی بُڑ بُڑا ہی رہا تھا کہ گلی کی نُکڑ پر ایرا غیرا کے گتھم گتھا ہو نے کا چرچا ہو ا۔ بڑ ے زور کا رَن پڑا ، مُکے چلے ،گھونسے لگے ، لاتیں پڑیں۔ آس پاس کے بزرگوں کو خبر ہوئی تو بیچارے اُلٹے قدموں بھاگے چلے آئے۔ باتوں باتوں میں با ت کُھلی تو پتہ چلا کہ کسی سیاسی مسئلے نے طول پکڑا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔

بھو کے کو روٹی ،اندھے کو آنکھیں اور بابا سُکھا کو ہمیشہ سامعین درکار ہو تے۔ ایرا غیرا کو پاس بیٹھایا اور خو ب علمیت جھاڑی۔ کہنے لگا ” وہ زمانے گئے جب فیصلے جنگوں میں ہوا کر تے تھے ، اب زمانہ بدل گیا ہے۔ بڑی بڑی جنگوں کے فیصلے بھی آخر چھوٹی چھوٹی میزوں پر کرنے پڑتے ہیں۔ گویا مہذب دنیا نے یہ راز پا لیا کہ بحث و تمحیص ہی مسائل کا بہترین حل ہے۔ بحث و تمحیص میں یہ گُن موجود ہو تا ہے کہ یہ سیدھے سادھے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلہ بنا دیتی ہے۔

سیاسی مسئلہ پر بحث کے عمو ماً دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ در پیش مسئلہ کی تمام جہتوں کا تخمینہ و میزانیہ سامنے آجا تا ہے اور دوسرا یہ کہ جب تک بحث ختم ہو تی ہے تب تک مسئلہ بھی ختم ہو جا تا ہے۔ بعض اوقات تو ایسا حل سامنے آتا ہے کہ دانستہ منہ سے نکل جا تا ہے کہ اس سے تو مسئلہ ہی اچھا تھا۔ قوموں کی لیگ سے اقوام متحدہ تک دنیا کے تمام بڑ ے ایوانوں میں یہی کچھ ہو تا ہے۔ کسی بھی سیاسی فورم پہ غربت کا ذکر کرنا مقصود ہو تو بات انسان کے چاند پر رکھے پہلے قدم سے شرو ع کی جاتی ہے اور اپنی دلیلوں سے ثابت کیا جاتا ہے کہ وہ ایک شُغلِ بے کا ر تھا ،جس سے انسانوں کو تو درکنار جانوروں کو بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ مریخ کے موسمی حالات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ نیپچون پر زندگی کے آثار پر ر وشنی ڈالی جاتی ہے”۔ سوال گندم جواب چنا ،پوچھا کچھ بتایا کچھ، آنکھ کے اندھے اور نام نین سکھ، بابا سکھا کو لگا جیسا سائیں مستا اس سے مخاطب ہے مگر وہ تو دور نیم کی ٹہنی پر بیٹھے کوے سے مخاطب تھا۔ پو چھ رہا تھا کہ اے کالے کلو ٹے کوے تم اتنے کا لے کیوں کر ہو؟ جو اب ملا کائیں کائیں۔۔۔۔ سائیں مستا نے ہوا میں پتھر اُچھالا اور کوا اڑا کر کہنے لگا کہ” اس نے پتھر بھی اُٹھایا ہے مجھے پا گل کر کے “پتھر کس نے اُٹھایا؟ پاگل کو ن ہوا ؟ اس نے پتھر کیوں اُٹھایا ؟ مجھے پاگل کرنے کے لیے؟ میں پاگل ہوں؟ کیا میں پاگل ہوں؟ اچھا میں پاگل ہوں تو بتاؤ میں پہلے پاگل ہوا تھا یا اُس نے پہلے پتھر اُٹھایا تھا؟ فیصلہ کس نے کرنا ہے؟ بابا سکھا نے؟ با با سکھا تو خود پاگل ہے، گھڑونچی پہ پڑا وہ مٹکا پا گل ہے، نیم کا یہ درخت پاگل ہے، اس کی ٹھنڈی چھا ؤں پا گل ہے، پاگل پاگل سارا جہان پاگل ہے گیڑو اوہو اوہو اوہو۔ ۔ ۔ ۔
ابا سُکھا نے ایرا غیرا سے دست گر یبان ہو نے کی وجہ پو چھی ایرا نے کہا دیکھو بابا سُکھا میں کہتا ہو ں کہ بادشاہت اچھا طرز حکومت ہے جبکہ غیرا کو ضد ہے کہ دنیا میں جمہوریت کا چلن ہونا چاہیے۔ بابا سُکھا نے ایرا کو مو قع دیا کہ وہ اپنا نکتہ نظر بیان کرے” ایرا نے ٹھنڈی آہ بھری اور بو لا ،وہ بھی کیا سادہ زمانے تھے جب باد شاہوں کے بڑ ے ٹھاٹھ ہوا کرتے تھے، نہ آئین کا ذکر، نہ قانو ن کی فکر، جو بولا وہ آئین، جو کہا وہ قانون۔ پھر کیا ہوا کہ بادشاہت لد گئی اور جمہوریت آ پہنچی۔ اِس جمہوریت نے وہ اُودھم مچایا ہے کہ بات بات پر قانو ن بنانا پڑتا ہے حتٰی کہ قا نون توڑنے کے لیے بھی قانون ہی بنانا پڑتا ہے۔ سکتوں وقفوں اور کاموں اور قوسوں پر ایسی گنجلک بحثیں چھیڑی جاتی ہیں کہ نانی یاد آ جاتی ہے۔ چہار سو اسی چندری جمہوریت کے چرچے ہیں۔ نان بائی ،کلچہ فروش، بافندے، سازندے، رفو گر، کباڑئیے، خرادئیے، جو لاہے، جِلد ساز، رَنگ ریز، قلعی گر، آئینہ ساز، بنس پھوڑ، منہار، نگینہ ساز، ٹھٹھیرے، کسیرے، کندلہ گر، زین ساز، تار کش، زر کوب اور پھکڑ باز سب کے سب جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ کوئی پو چھ لے کہ جمہوریت کیا ہو تی ہے تو آئیں بائیں شائیں کر نے لگتے ہیں۔ سات سمندر پار کسی مجذوب نے ہانکی تھی کہ جمہوریت عو ام کی حکومت ہو تی ہے، قریب تھا کہ با ت بااثر ہو تی اس نے بات ہی بدل ڈالی اور بولا جمہوریت تو عوام کے لیے حکومت ہو تی ہے، بات ابھی باب قبول تک نہ پہنچی تھی کہ وہ پھر سے مُکر گیا اور کہنے لگا کہ جمہوریت تو عوام کے ذریعے حکو مت ہو تی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن ہے کہ جمہوریت عوام کے ذریعے حکومت بن کے رہ گئی ہے۔ پہلے پورا نظام ایک شخص کے گرد گھوما کرتا تھا لیکن اب تو یہ کئی شخصوں کے گرد گھومتا ہے۔ جمہوریت تو اتنی ناپائیدار ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جس دن اسے خطرہ نہ ہو، کو ئی حق مانگے تو جمہوریت کو خطرہ ،کوئی احتجاج کر ے تو جمہوریت کو خطرہ، کوئی انصاف کی دہائی دے تو جمہوریت کو خطرہ۔۔۔

یہ سننا تھا کہ غیرا پھٹ پڑا ، بو لا “مطلق العنان اور مادر پدر آزاد بادشاہو ں کی سفاکیوں سے دنیا کی تاریخ اٹی پڑی ہے۔ کسی نے باپ کو قتل کروایا تو کسی نے بھائیوں پہ ہا تھ صا ف کیے۔ ذرا ذرا سی با ت پر شہر کے شہر تہ تیغ کر دیتے۔ روم جل رہا تھا اور نیرو بیٹھا با نسری بجا رہا تھا۔ ادھر دشمنوں نے دِلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اُدھر محمد شاہ رنگیلا شہر میں حلوے بانٹتا رہا۔ کنگ کیلیگولا کی بہترین تفریخ یہ ہو تی تھی کہ وہ را ت کے کھانے کے دوران کسی زند ہ انسان کو آرے سے چِرتا دیکھ کر حظ اُٹھا تا۔ کھوپڑیوں کے مینار بنوانا تو عام سی با ت تھی وہ تو لاشوں کو گھو ڑوں کے سُموں تلے روندنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ اس سے پہلے کہ بابا سکھا کچھ کہتا سائیں مستا بڑ بڑانے لگا کہ لنگڑی کٹو اگر آسمان پہ گھونسلا بنانے کی تدبیریں گھڑنے لگے اور گنجی کبوتری محلو ں میں رہنے کی سازشیں کرنے لگے تو پتھر تو پڑیں گے۔ یہ کہہ کر سائیں مستا نے اندھا دھند پتھر برسانے شرو ع کردیے اور بڑ بڑانے لگا کہ نظام کوئی بھی ہو ،معاشرہ کیسا بھی ہو ،بھوکے کو روٹی ملنی چاہیے۔ ایرے غیرے یہاں بحثیں کرتے رہیں گے اور لو گ فاقوں مرتے رہیں گے۔ بھا گو یہا ں سے پا گل کہیں کے، با با سکھا پاگل، زلفی پا گل، گھڑونچی پہ پڑا وہ مٹکا پاگل ،نیم کا یہ درخت پاگل ، اس کی ٹھنڈی چھاؤں پاگل ،پاگل پاگل سارا جہان پاگل گیڑو اوہو اوہو اوہو۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).