حرم ِپاک ہی میں خودکشی کیوں؟


پچھلے دس دنوں کے دوران بیت اللہ شریف میں دو افراد نے حرم شریف کی بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔ ان خود کشیوں سے قریباً ایک سال قبل ایک شخص نے خانہ کعبہ کے قریب خود کو آگ لگا کر خود سوزی کی کوشش بھی کی تھی۔ مذہبی طبقے نے ایسے واقعات کی پرزور مذمت کی ہے کہ یہ کتنے بدنصیب افراد ہیں جنھوں نے خودکشی جیسے حرام کام کے لئے بیت اللہ شریف کا انتخاب کیا۔ اس لئے روز قیامت ان ’’منحوس‘‘ افراد پر اللہ کا عذاب عام لوگوں مقابلے میں کئی گنا زیادہ نازل ہوگا۔ علماء کی اکثریت ان خود کشیوں کی بنیادی وجہ خودکشی کرنے والے افراد کی ایمان کی کمزوری بیان کرنے کے بعد خاموشی پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف مذہب پر یقین نہ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں مذہب کے وجود کو رگڑنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آجاتا ہے اور وہ ان افسوس ناک واقعات کو پورے زور و شور سے مذہب کی ناکامی کے ساتھ نتھی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ ان خود کشیوں کے علاوہ حرم میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی اور لوگوں کی قیمتی اشیاء کے چوری ہونے کے واقعات بھی آئے روز خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اس لئے حج و عمرہ کے لئے دی جان والی تربیت کے دوران اپنی قیمتی اشیاء کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ میں خود بھی حرم پاک میں ایسے کئی مجرمانہ واقعات کا چشم دید گواہ ہوں جن میں ہم وطن ٹیکسی ڈرائیور مختلف حیلوں اور حربوں سے آپ کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے اور بعض لوگ حرم شریف سے باہر احرام باندھ کرچوبیس گھنٹے اس چکر میں رہتے ہیں کہ کسی سادہ لوح زائر کو پھنسا کر کسی حربے سے اسے لوٹنے کی کوشش کریں۔ اس مقدس مقام پر خاص طور پر پہلی دفعہ جانے والا شخص بمشکل ہی ان فراڈیوں سے بچ جاتا ہے۔

تو ساتھیو! بات حرم شریف یا اس کے قریب ہونے والے جرائم کے بارے میں ہو رہی تھی کہ اتنے مقدس مقام پر بھی لوگ غلط کاموں سے باز کیوں نہیں آتے؟ بات یہ ہے کہ بلاشبہ دنیا کا ہر مذہب اپنے پیروکاروں کو ایک پرامن زندگی اور اعلیٰ اخلاق و اعمال کی تربیت کا درس دیتا ہے اور ساتھ اپنی بتلائی ہوئی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بعد ازمرگ یعنی روز قیامت انھیں سخت عذاب کی وعید بھی سناتا ہے لیکن انسانوں کا مزاج اور تاریخ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جب تک کسی شخص کو کسی چھوٹے سے چھوٹے جرم کی سزا بلا تخصیص اسی دنیا میں نہیں ملے گی، اس وقت تک کوئی معاشرہ صحیح معنوں میں اخلاقی طور پر ترقی نہیں کرسکتا۔ جن اقوام نے تاریخ سے سبق حاصل کرکے دوسروں کی ذاتی زندگیوں میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی پر مکمل پابندی لگا دی ہے اور کسی اچھے یا برے کام پر جزا و سزا کے قانون کو اپنے معاشروں میں سختی سے نافذ اور قائم رکھا ہوا ہے، ایسے معاشروں کے تربیت یافتہ لوگ چاہے ویٹی کن سٹی جائیں یا مکہ و مدینہ میں حاضری دیں، وہ ہمیں سب سے جدا اور منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف ہم چوں کہ بچپن سے ہی دوسروں کو دھوکا دینے میں طاق ہوچکے ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر محکمہ انصاف سے اپنی مرضی کا انصاف حاصل کرنا بھی ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اس لئے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے ہم میں سے اکثر کا یہی نصب العین ہوتا ہے کہ اپنے ملک سے باہر جاکر اگر ہمیں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لئے کسی قسم کی بھی دو نمبری کرنی پڑے تو ہم اس سے باز نہیں آئیں گے کیوں کہ وہ ہماری خمیر میں رچ بس چکی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں چاہے اپنے ملک کی جتنی بھی بدنامی ہو، اس کی ہمیں ہرگز پرواہ نہیں ہوتی۔ روز اول سے ہم اپنی مسجد (جو کہ اللہ کا گھر ہوتا ہے) میں نماز کے لئے جاتے ہیں تو اپنی جوتی کو چوری سے محفوظ بنانے کے لئے مسجد کے اندر چھپا کر رکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنی مسجد میں اپنی جوتی کو چوری سے نہیں بچا سکتے تو پھر بیت اللہ شریف میں رش کی وجہ سے کسی بھی مجرمانہ سرگرمی کی روک تھام کیسے کرسکتے ہیں۔ یعنی چھوٹی جگہ پہ چھوٹا جرم اور بڑی جگہ پہ بڑا جرم کے اصول پر ہم پوری ایمان داری کے ساتھ عمل پیرا رہتے ہیں۔ چوں کہ ذہنی طور پر ہم نے اپنے آپ کو اس مسئلے پر مکمل طور پر مطمئن کیا ہوا ہے کہ بس کسی طرح سے ہم دنیاوی قوانین کی پکڑ سے بچا جائیں باقی اپنے رب کو تو کسی نہ کسی صورت میں منا ہی لیں گے، اگرچہ یہ فلسفہ سراسر غلط فہمی اور گمراہی پر مبنی ہے۔

جہاں تک خانہ کعبہ میں خودکشیوں کا معاملہ ہے تو ہم نے کبھی اس بات پہ غور کیا ہے کہ ریاست پاکستان میں آئے روز ابتر معاشی اور معاشرتی حالات کے جبر سے آزاد ہونے کے لئے اکثر مائیں اپنے لخت جگروں کے ساتھ نہروں میں بلا جھجک کودنے پر آمادہ یا مجبور ہوجاتی ہیں۔ یا کوئی سنگ دل باپ یا ماں اپنے ہی معصوم بچوں کے گلے کاٹنے سے کیوں نہیں ہچکچاتے۔ اسی طرح دوسری جانب ایک خودکش بمبار کیسے زیادہ تر اپنے ہی ہم وطنوں کی عبادت گاہوں میں ہولناک قیامت برپا کرتے ہوئے اپنے ساتھ دیگر کئی معصوم لوگوں کی جانیں لینے سے قطعاً نہیں ڈرتا۔ ایسے واقعات میں زندہ بچ جانے والے اکثر افراد اپنی معذوری سے تنگ آکر اپنے مرنے کی دعائیں مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

غور کریں تو پتہ چلتاہے کہ خود کشی کی دونوں صورتوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ خودکش بمبار کی باقاعدہ برین واشنگ کرکے کوئی مخصوص گروہ اسے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے۔ دوسرے معنوں میں خودکش حملہ آور کی برین واشنگ کرکے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر مفلوج کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک ریموٹ کنٹرول کی طرح کچھ بھی کرنے کے لئے آسانی سے تیار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دگرگوں معاشی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے جب معاملات انسان کے کنٹرول سے باہر ہونے لگیں تو کچھ لوگوں میں حالات کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دم توڑ جاتی ہے۔ اس مرحلے میں ان پیچیدہ مسائل سے آزادی حاصل کرنے کا انھیں سب سے آسان راستہ صرف خودکشی کی شکل میں نظر آتا ہے اور موقع ملتے ہی وہ اس پہ عمل بھی کرلیتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت کی انتہا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کسی شخص کا دماغ بالکل ماؤف ہوجاتا ہے تو پھر خود کشی کرنے کے لئے اس کے ذہن میں کسی خاص مقام کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ ہاں یہ ضرور اہم ہے کہ جس وقت اس کا دماغ اسے خود کشی پر مجبور کرتا ہے، تو اس وقت اسے یہ پرواہ بالکل نہیں ہوتی کہ وہ کہاں پہ موجود ہے۔ وہ اس وقت کسی بڑی عمارت کی چھت پہ بھی ہوسکتا ہے، کسی نہر یا دریا کے قریب بھی ہوسکتا ہے اور وہ کسی عبادت گاہ کی عمارت کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں خودکشی کے مقام سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کوئی شخص حالات کے اس نہج پہ کیوں پہنچ جاتا ہے جس کے نتیجے میں اسے خودکشی جیسا انتہائی اور ناپسندیدہ قدم اٹھانا پڑتا ہے۔

دنیا میں خود کشیوں پر مکمل قابو پانا تو ممکن نہیں کیوں کہ مخصوص نامساعد حالات اور مختلف ذہنی کیفیتوں کی وجہ سےخودکشی کرنےوالے لوگوں پر مایوسی کی ایک خاص قنوطی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کے بعد انھیں خودکشی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجھتا لیکن معاشرے اور نظام میں چند مثبت اقدامات کرکے ان میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ مثلاً کسی معاشرے میں انصاف کی عدم موجودگی، غیرمعمولی معاشی عدم مساوات، مسلسل بے روزگاری، معقول طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث علاج معالجہ میں ناکامی، ذہنی امراض، ناروا سماجی رسوم و رواج اور معاشرے میں مروجہ منفی رویے جیسے وجوہات خود کشی کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے اگر ان مسائل کو حل کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے تو زندگی سے مایوس لوگوں میں زندگی سے محبت اور جینے کی ایک نئی امنگ پیدا کی جاسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).