کرنل صاحب اور ارجن سنگھ کی وہسکی


سگنل سینڑ کی زندگی فقط اللہ ہو کے گرد ہی نہیں گھومتی تھی۔ جہاں ارجن سنگھ ایسے ہم جماعت ہوں وہاں کئی ایسے واقعات ناگزیر تھے جو دل یزداں میں بھی کھٹکنے لگیں۔ ارجن سنگھ ایک قوی ہیکل اور خوش مزاج سکھ کیڈٹ تھا۔ پینا اس کی کمزوری تھی۔

ایک شام ارجن سنگھ کو معمول سے زیادہ بدمست پایا گیا حالانکہ اس روز میس میں ارجن سنگھ نے شراب کو چھوا تک نہ تھا۔ دوسرے روز کلاس میں بھی ارجن سنگھ معمول سے زیادہ موج میں تھا اور کلاس کے رستے میں کوئی میخانہ بھی نہ پڑتا تھا۔

ہمارے ایک انگریز ساتھی مارغن نے شرارتاً کہہ دیا کہ ارجن سنگھ نمبو پانی پر ہی ٹائٹ ہو گیا ہے۔ ارجن سنگھ اس تہمت بزرگانہ انداز میں مسکرا دیا۔ شام ہوئی تو ارجن سنگھ کی مستی عروج پر تھی۔ دفعۃً اپنے کمرے سے نکلا اور ایک دوسرے کیڈٹ کی کمر میں بازو ڈال کر ناچنے لگا۔

معمہ یہ تھا کہ ارجن سنگھ آخر کیا پی رہا ہے جو دو روز سے ہوش میں نہیں آتا؟ رقص جاری تھا کہ ہمارے کمان افسر یعنی کرنل صاحب ادھر آ نکلے۔ دراصل وہ بھی ارجن سنگھ کی مستی کا عقدہ حاصل کرنے کی فکر میں تھے۔

ارجن سنگھ نے انہیں دیکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، بڑھا اور کرنل صاحب کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ناچنے کی ابتدا کرنے لگا، لیکن کرنل صاحب نے مسکرا کر کہا ”ارجن سنگھ، ناچیں گے بعد میں، آؤ ذرا تمہارے کمرے میں بیٹھتے ہیں“۔

ارجن سنگھ بخوشی راضی ہو گیا۔ بدستور کرنل صاھب کی کمر میں بازو ڈالے انہیں کمرے میں لے گیا اور حسب دستور پوچھا کہ کچھ پئیں گے؟ کرنل صاحب یہی تو معلوم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انگریزوں کا وہ روایتی فقرہ بولے ”آئی ووڈ لوو اٹ“۔
I would love it

اس پر ارجن سنگھ اٹھا، اپنا پلنگ الٹایا۔ نیچے دو کنستر دیسی شراب کے پڑے تھے۔ ارجن سنگھ نے ایک پر سے ڈھکنا اٹھایا اور ایک لمبا گلاس لبالب بھر کر کرنل صاحب کو پیش کیا۔ کرنل صاحب ذرا جھجکے تو ارجن سنگھ بولا:
”چھک جاؤ موتیا والیو۔ آہ وسکی اے۔ آپاں گھر بناونے آں“۔ (کرنل صاحب چڑھا جاؤ، یہ وہسکی ہے، ہم خود گھر بناتے ہیں)۔

کرنل صاحب کی سمجھ میں تو کچھ نہ آیا البتہ انہوں نے ارجن سنگھ کی خوشنودی کے لئے گلاس منہ سے لگا لیا۔ خدا جانے ارجن سنگھ کی خانہ ساز میں کیا تاثیر تھی کہ کرنل صاحب ایک دفعہ گلاس کو ہونٹوں سے لگانے کے بعد جدا نہ کر سکے اور پورا گلاس حلق میں انڈیل لیا۔ راوی یعنی ارجن سنگھ کے بیرے کا کہنا ہے کہ کرنل صاحب نے دوسرا گلاس اپنے ہاتھوں سے بھرا اور چڑھا گئے۔

کوئی آدھا گھنٹہ بعد جو نظارہ ہم باہر کھڑے ہوئے تماشائیوں نے دیکھا، یہ تھا کہ کیڈٹ ارجن سنگھ اور کرنل صاحب اپنے ہاتھوں میں جام شراب تھامے اور بازو ایک دوسرے کے گلے میں حمائل کیے تھرکتے تھرکتے کمرے سے باہر آتے ہیں اور ہم سے قطع نظر کیے ہوئے چل نکلتے ہیں۔

اگر کسی سے ذرا آنکھ لڑ جاتی ہے تو نہایت چابکدستی سے جوابی آنکھ مارتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ارجن سنگھ کا بیرا کنستر سر پر اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے رواں ہے۔ بیرے سے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کنستر کی منزل کرنل صاحب کا بنگلہ ہے۔
بجنگ آمد سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments