چولستان کے صحرا میں بھٹک کر تین ننھی بچیوں کی موت


جب کوئی موت نظر سے گزرتی ہے تو گمان ہوتا ہے کہ اس سے ہمیں بھی گزرنا ہے۔ ہر شخص نے کبھی نہ کبھی موت کو فینٹیسائز کیا ہوتا ہے اور مجھ سمیت اکثر اپنی موت کو بڑھاپے میں تصور کرتے ہیں۔ کسی ہسپتال کے بیڈ پر آنکھیں موندے موت آ جائے تو کیا ہی اچھا ہو مگر کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں اندر سے ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ منو بھائی نے کہا تھا کہ ہم ایسے حساس لوگ ہیں کہ ہمیں قاتل کی ماں سے بھی ہمدردی ہوتی ہے۔ میں بھی بہت حساس واقع ہوا ہوں۔ میں تو مچھر اور مکھی کو مار کر بھی سوچ رہا ہوتا ہوں کہ ان کی بھی کوئی فیملی ہو گی کہیں اس کے بچے اس کا انتظار نہ کر رہے ہوں۔

میرے گاؤں میں ہمارے کچے کمرے میں چڑیوں نے گھونسلے بنا لیے تھے۔ جب ہم چھت والا پنکھا چلاتے تو اک دو چڑیاں گھونسلے میں نکلتے ہوئے پنکھے سے ٹکرا کر مر گئیں۔ میں نے رو رو کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا اور اس وقت تک رونا بند نہ ہوا جب تک کہ چھت والے پنکھے کی جگہ نیا پیڈسٹل فین نہیں آ گیا۔ چھت والا پنکھا ہمارے شہر میں شفٹ ہونے تک دوبارہ نہیں چلایا گیا۔

دکھ اور سکھ اک دوسرے کا متضاد ہوتے ہیں یعنی جہاں سکھ ہو وہاں دکھ کا ہونا غیر فطری بات مانی جاتی ہے مگر ہمارا ملک ایسا ملک ہے جہاں خوشی اور سکھ صرف کتابوں میں ملتا ہے یا ٹی وی ڈراموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

مجھے نہیں یاد کہ میرے ہوش سنبھالنے کے بعد کوئی ایسی عید گزری ہو کب پاکستان میں کوئی دکھی حادثہ رونما نہ ہوا۔ ہو کبھی کسی روڈ ایکسیڈنٹ میں اک ہی خاندان کے کئی افراد لقمہ اجل بنے تو کبھی کشتی رانی میں افراد ڈوبے کبھی کسی زلزلے نہ عید کی خوشی کو غارت کیا تو کبھی کسی دیرینہ دشمنی نکالنے کے نتیجے میں قتل و غارت دیکھنے میں آئی۔ اس رمضان میں میں نے دل کی گہرائیوں سے دعا مانگی تھی کہ یہ عید کسی سانحے کا شکار نہ ہونے پائے مگر ہمارے دوست قمر نقیب خان نے ہماری دعا رد ہونے کے ثبوت پر اطلاع دی کہ اس عید پر تین معصوم کلیاں غربت کی بدولت مرجھا گئیں ہیں۔

یہ بچیاں خانیوال اڈہ چھب کلاں کے غریب ہاری نصیر احمد کی بیٹیاں تھیں اور پورے خاندان کے ہمراہ بہاولنگر اور جنوبی پنجاب کی آخری تحصیل فورٹ عباس کے تپتے صحرا میں کھیتی باڑی اور مزدوری کرنے آئی تھیں۔ پرسوں اپنی پھپھو کے گھر سے واپس اپنے ابا کے گھر کے لیے نکلیں مگر 45 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی اور 97 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ریت بھری تیز ہواؤں سے وہ راستہ بھٹک گئیں۔

کوئی اور ملک ہوتا تو ان بچیوں کو ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوششیں کی جاتیں۔ ریسکیو مشن نکل پڑتے، ہیلی کاپٹروں میں بچیوں کو ڈھونڈا جاتا۔ لیکن افسوس کہ یہ بچیاں پاکستان جیسے مردہ ملک میں پیدا ہوئیں۔ جن کے حکمران اپنے لیے اربوں روپے کے ہیلی کاپٹر خریدتے ہیں۔ جن کے حکمران پرائیویٹ جیٹ میں عمرے کرتے ہیں۔ جن کے حکمرانوں کا علاج لندن کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہو رہا ہے، جن کے حکمران ہر سال عید منانے انگلینڈ جاتے ہیں چونکہ یہ پاکستان تھا اس لیے پولیس اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ کسی سرکاری افسر نے اس کیس کو سیریس نہیں لیا

نصیر احمد اور اس کی بیوی پاگلوں کی طرح چولستان میں اپنی تین بیٹیاں ڈھونڈتے رہے، مقامی لوگوں نے ان کی مدد کی کوشش کی، وہ دو دن تک ٹریکٹروں اور موٹرسائیکلوں پر بچیوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے تیسرے دن جب سارا ملک چاند رات منا رہا تھا لڑکے بالے ون ویلنگ اور ہوائی فائرنگ میں مصروف تھے لڑکیاں مہندی کے ڈیزائنوں اور میچنگ دوپٹے کے چکر میں ہلکان ہوئی جاتی تھیں ان تینوں بہنوں کی لاشیں ملیں۔ سرویا نو سال کی تھی، فاطمہ سات سال کی اور اللہ معافی صرف پانچ سال کی۔

یہ تینوں بہنیں چولستان کی شدید گرمی میں بھوک اور پیاس سے اپنا گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندگی ہار گئیں، جب ان بچیوں کی لاشیں ملیں تو تینوں بہنوں نے مرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھے تھے میں کہہ رہا تھا ہم سب موت کو فینٹیسائز کرتے ہیں مگر ایسی موت کسی نے نہیں سوچی ہوگی اوپر سورج کی جھلساتی شعاعوں اور پاؤں کے نیچے تپتی ریت نے ان معصوم جسموں کو پیاس سے نڈھال کر دیا ہو گا نو سالہ سرویا نے فاطمہ اور اللہ معافی کو حوصلہ دیا ہو گا پانچ سالہ اللہ معافی نے امید بھری نظروں سے بڑی بہنوں کو دیکھا ہو گا کہ کل تک اسے اک کانٹا بھی چھبتا تو دونوں بہنیں اس کے آگے بچھ بچھ جاتی تھیں آج بھی وہ اس کے لیے پانی کا بندوبست کریں گی

بھوک و پیاس سے نڈھال ان معصوم بچیوں نے صحرا سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کی ہو گی شاید انہوں نے مدد کے لیے آوازیں بھی دیں ہوں گی چیخیں بھی ماری ہوں گی امید بھری نظروں سے چاروں طرف دیکھا ہو گا پھر اک وقت آیا جب وہ گر گئیں آنسو خشک ہو گئے سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا سرویا کو لگا ہو گا کہ ان کی پھپھو ان کی ماں ان کا باپ جن کے لیے وہ پورا جہاں تھیں وہ ان کو ڈھونڈ لیں گے اس نے اپنی بہنوں کو تسلی دی ہو گی وہ ان کو ڈھونڈنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے شاید ان بچیوں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ سے مدد مانگی ہو کہ وہ ان کی مدد کی سبیل نکالے

پہلا دن ڈھلا رات بھر وہ پیاس کی شدت سے ہونٹوں پر خشک زبان پھیرتی رہی ہوں گی دوسرے دن بھی شاید وہ زندہ رہی ہوں گی شاید انہوں نے خدا سے بارش کی دعا مانگی ہو نقاہت سے ان کے جسموں نے حرکت سے انکار کیا ہو گا پھر سارا دن بھوک و پیاس کی شدت ان کے ننھے معدے میں آگ سی لگی ہو گی پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے کچھ نہ ملنے کی صورت میں یہ آگ ان کے جسم کو کھانا شروع ہوئی ہو گی پل پل اذیت ناک موت کی جانب بڑھتے ان کو خاندان کا اک اک فرد یاد آیا ہو گا ماں کا پیار اور باپ کا لاڈ یاد کر کے دل کو بہلانے کی کوشش کی ہو گی خیال ہی خیال میں ٹھنڈا ٹھار پانی اور انواع و اقسام کے کھانے کے دسترخون پر خود کو بیٹھا پایا ہو گا انہوں نے دل ہی دل میں بہت سے پھل کھائے ہوں گے کہ شاید اس طرح ان کی تکلیف کچھ کم ہو اور پھر اسی قسم کے حالات و خیالات سے نپٹتے نپٹتے پانچ سالہ اللہ معافی جان کی بازی ہاری ہو گی

شاید سرو نے اسے تسلی دینے کے لیے پکارا ہو اسے آوازیں دیں ہوں شاید تمام تر قوت مجتمع کر کے اٹھنے کی ناکام کوشش بھی کی ہو کہ اسے اٹھا کر گود میں لٹائے پھر فاطمہ نے جان دی ہو گی یا پھر سرویا نے پہلے دم توڑا ہو اک دوسرے کے ہاتھ تھامے ان لاشوں نے مجھ سے میری عید کی تمام خوشیاں چھین لیں ہیں وہ تینوں بہنیں سسک سسک کر مر گئیں مگر ہماری قوم کے مردہ پن کو اک بار پھر ننگا کر گئیں ہیں

پاکستان اک اسلامی ریاست ہے اس کے قیام کے پیچھے نظریہ اسلام کارفرما تھا فلاحی ریاست کا ایسا نظریہ جس میں اگر کوئی کتا بھی فرات کنارے بھوک پیاس سے مرے تو حکمران خود کو جواب دہ قرار دیں میں یہاں کسی پر تنقید نہیں کروں گا کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤں گا مجھے نہیں معلوم اس میں کس کا قصور ہے غربت کا ہجرت کا پولیس کا ماں باپ کا حکومت کا موسم کا یا پھر ریگستان کا بس مجھے اتنا معلوم ہے کہ پچھلی کئی عیدوں کے غموں کی نسبت یہ غم بہت بڑا ہے دعا ہے اللہ پاک کبھی کسی صاحب اولاد کو بچوں کی موت جیسا غم نہ دے آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).