خوابوں کا پیچھا کریں۔۔۔تاریک راتوں میں!


آج وہ عرصے بعد بھائیوں کے ساتھ سیر کو نکلا تھا۔ ہمیں بھی۔ کتنی ہی دفعہ زندگی ایک دلکش سیر کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ ہم اپنے عزیز رشتہ داروں کی گھنی چھاؤں میں تتلیوں کی طرح ایک پھول سے دوسرے پر لپکتے پھرتے ہیں۔ چلتے چلتے وہ ایک جگہ رکے۔ بھائیوں کے ہاتھ اس کی طرف بڑھے۔ اپنوں کے ہاتھ اپنوں کے ہاتھ ہی ہوتے ہیں۔ محبتوں میں گندھے! ہم سب یہی سمجھتے ہیں۔ اس نے بھی یہی سمجھا ہو گا۔

اب وہ سب اس کی قمیص اتار رہے تھے۔ یقیناً کچھ کھیلنے کی تیاری تھی! ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے عزیز ہمارا دامن بھی کھینچیں تو بھی ہم مزا لے کر رہ جاتے ہیں۔ کہ مان کا تقاضا ہے۔ جو ہماری آبرو، وہی ان کی آبرو! وہ سب اسے لیے آگے بڑھے۔ سامنے کنواں تھا۔ انہوں نے اسے اس میں لٹکا دیا۔ مسرور آنکھوں میں خوف کے سائے رقصاں ہوئے مگر امید کے چراغ سے مات کھا گئے۔ ”آج کا نیا کھیل دلچسپ ہو گا!“

کتنے ہی باپ اپنے نوخیز بچوں کو کھڑکی سے نیچے لٹکاتے اور ہوا میں اچھالتے ہیں مگر پھر تھام لیتے ہیں۔ کوئی پھینکتا تھوڑا ہی ہے! بھائیوں نے اسے لٹکائے ہوئے۔ نیچے چھوڑ دیا۔ وہ گرتا چلا گیا۔ نیچے۔ بہت نیچے۔ روح سسکی۔ جگر پاش ہوا۔ وہ اڑتے ہوئے پانی کے چھینٹے نہ تھے، اس کی امیدوں کا خون تھا جو سیدھا اس کے دل پہ آ  لگا دیا، کہ ظالموں نے تَر ہونے کو دامن تک نہ چھوڑا تھا!آج کنویں میں چاند لڑھکایا گیا! یعقوبؑ کے دل کا چاند! خاندانِ نبوت کا جگمگاتا قمر! نہیں بلکہ اس سے تو چاند بھی شرماتا تھا۔ نہیں بلکہ اسے سجدہ کرتا تھا۔ سورج اور گیارہ تاروں سمیت! اس نے خود خواب میں دیکھا تھا!

ہمیں بھی۔ کتنی ہی بار زندگی اپنوں کے ہاتھوں اذیتوں کے تاریک کنویں میں دھکیل دیتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں، غلطی آپ کی ہے۔ آپ نے خود کو گرانے کے لیے پیش کردیا۔ بچنے کی تدبیر تک نہ کی۔ کوئی کنویں میں گرے کم سن یوسفؑ سے پوچھتا تو وہ بتاتے کہ وہ بھائیوں کے پکڑنے سے پہلے بھاگ جاتے، ہاتھ پاؤں چلاتے ہوئے چیختے اگر انہیں خیال تک بھی ہوتا کہ کبھی اپنا خون بھی آپ کو پرائے پانی کے حوالے کر سکتا ہے!

غم کے کنویں میں ہم سسکتے ہیں۔ مہیب اندھیرے ہمیں تڑپاتے ہیں، رلاتے ہیں۔ تنہائیاں مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنا واحد ہتھیار استعمال کریں۔ بددعا کا! کہ کنویں کی دیواروں سے گونجتی آوازیں دگنی چگنی ہو جاتی ہیں۔ مگر یوسفؑ کو دیکھیے، جنہوں نے دیکھا تو اوپر ہی۔ پکارا تو اللہ ہی کو۔ اللہ نے بھی وحی سے جواب دیا! آسمان نے کس کلیجے کے ساتھ وہ منظر دیکھا ہو گا جب مصر کے بازار میں چاند بیچا گیا! چند ٹکوں کے عوض۔ عزیزِ مصر کے گھر انہوں نے اپنے صالح شباب میں قدم رکھا تو ایک اور بلا وبالِ جان ہوئی۔

دوسرا کنواں! وہ گھر کا ایک کمرہ تھا جس کے دروازے تک عزیز کی بیوی نے بند کر دیے۔ آج پہلا کنواں یوسفؑ کی آنکھوں کے آگے لہرایا۔ نہیں! آج انہیں تدبیر کرنی تھی! وہ بھاگ کر دروازے کو لپکے۔ عزیز کی بیوی بھی بھاگی، پیچھے سے ان کا کرتا کھینچا اور وہ پھٹتا چلا گیا۔ ہر آزمائش میں ان کا کرتا ہی کیوں نشانِ زد بنتا تھا؟ کرتا پیچھے سے پھٹا تھا۔ سب جان گئے تھے، آج وہ پیکرِصداقت سچا تھا۔ دامن پھٹا تھا، لٹا تو نہ تھا! گویا تدبیر کامیاب ٹھہری تھی۔ ہم بھی اپنی تدبیر کر کے ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ یوسفؑ نے بھی یہی سمجھا ہو گا۔ مگر ایسا ہو بھی۔ لازم تو نہیں!

امرائے مصر کی سب عورتیں اب یوسفؑ کے پیچھے تھیں۔ کسی شخص کے پیچھے جاہ و جلال والی سب حسین عورتیں جمع ہوں۔ تو اسے اور کیا چاہیے؟ مگر نہیں، وہ یوسفؑ تھے۔ وہ ردی کھوپڑیاں ہوتی ہیں جو ایسی دعوتوں پہ بکتی ہیں۔ چاند کبھی حسن کی منڈیر پہ سجدہ نہیں کرتا۔

تقدیس کے سلطانوں کو حیاسوزی کے ایوان سزاوار نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے پھٹے کرتے سمیٹتے زندانوں قیدخانوں میں جا بیٹھنا ہی پڑتا ہے۔ اندھے کنویں میں گر کر، بازاروں میں بک کر، تہمتیں سہہ کر تاریک زندانوں میں آج خانوادۂ نبوت کا شہزادہ آیا تھا۔  وہ جیل جس میں چور، اچکے، قاتل، ڈاکو اور فسادی آتے تھے۔ میری زندگی کو غم کی ردا پہنائی ہے۔ کیا اپنے مقدر میں فقط قیدِ تنہائی ہے؟

ہمارے ساتھ بھی تو۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ زندگی ایک کنویں سے نکالتی ہے تو دوسرے زندان میں لا پھینکتی ہے۔ ہم اپنوں یا پرایوں کے ہاتھوں ہمیشہ اس وجہ سے مصیبت کا شکار نہیں ہوتے کہ ہم برے یا بدھو ہوتے ہیں۔ ہم تدبیر کرتے ہیں مگر ہر تدبیر کارگر تو نہیں ہوتی۔ ہر آزمائش ہمارے گناہوں کا عذاب بھی تو نہیں ہوتی۔ بہت دفعہ دنیا صرف اس وجہ سے ہمیں کنویں میں پھینک دیتی ہے کہ آخر ہم سعادتوں کے مینارے کیوں ہیں؟ بہت مرتبہ ہمیں تنہائیوں کی قید میں صرف اس لیے بند کر دیا جاتا ہے کہ آخر ہم اتنے پیارے کیوں ہیں؟!

کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ اذیت کیسے کیسے جگر چھیلتی ہے۔ ناکردہ گناہ کی سزا روح کو زخمی کرتی ہے۔ لہو رلاتی ہے۔ آخر ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو دنیا ہماری زندگی بگاڑنے پہ تلی جاتی ہے؟

قیدخانے میں تنہا بیٹھے خلیل اللہؑ کے پڑپوتے یوسفؑ سے پوچھیے، جنہیں زانی کہہ کر جیل بھیجا گیا! مگر آپ نے دیکھا انہیں؟ ان کے پاس دو قیدی اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے آئے اور کہنا لگے، ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیے۔ آہ! کس کے زخم چھیل دیے۔ اس سے پوچھ رہے ہیں جس کی معصوم آنکھوں میں کبھی سورج، چاند، تاروں کے خود کو سجدہ کرنے کے خواب چمکے تھے۔ آج وہ مہہِ تاباں زنداں میں تنہا بیٹھا تھا۔

قیدیوں نے بات جاری رکھی، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ محسنین میں سے ہیں۔ کیا؟ غموں کا پہاڑ اٹھانے والے یوسفؑ قیدخانے میں بھی احسان کرنے والے ہیں، محسن۔ اور وہ قیدیوں کو جواباً کہتے ہیں:   یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں۔

یوسفؑ کو تو اللہ سے ناراض ہونا چاہیے تھا کہ الٰہی، خاندانِ ابراہیم کے شہزادے کے ساتھ تیرا یہ کیا طریق ہے کہ دیارِ غیر میں آزمائشوں پہ آزمائشیں سہتا جائے؟ مگر وہ کیسی محبت سے اللہ کو ’ربی‘ کہتے ہیں، میرا رب۔

اور یوسفؑ کو تو کوئی علم حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، پھر انہوں نے یہ ’علوم‘ کہاں سے حاصل کر لیے؟ ارے ہاں، جب وہ عزیزِ مصر کے گھر غلام تھے تب انہوں نے سیکھے علومِ حکمرانی۔ ہم ہوتے تو شاید گرنے، بکنے اور دور ہونے کے غم سے ہی نہ نکل پاتے مگر وہ یوسفؑ تھے!  خاندانِ نبوت کا چاند!

اور دوسرا علم؟ خوابوں کی تعبیر کا! وہ کس نے سکھایا انہیں؟ انہوں نے خود کہا، ’ان کے رب نے‌۔ ‘ مگر یوسفؑ کو خواب کی تعبیر کا علم ہی کیوں دیا گیا؟ اس لیے کہ انہیں اپنے اک خواب کا قرض چکانا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یوسفؑ نے خود ہی دعا کی ہو کہ اللہ انہیں خوابوں کی تعبیر کا علم دے اور اللہ نے انہیں علم سکھا دیا ہو گا۔

پھر یوسفؑ نے کہا، واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، اپنے بزرگوں، ابراہیم (علیہ السلام)، اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں۔ درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا)  مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ یوسفؑ قیدخانے میں بھی دین کی دعوت دینے لگے؟ وہ بھی کس کو؟ چور اچکوں کو؟ واقعی محسن تھے!

 انہوں نے دونوں قیدیوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتائی اور ایک سے کہا، رہا ہونے کے بعد بادشاہ سے میرا ذکر کرنا۔ رہائی کی تدبیر بھی تو کرنی تھی نا۔ مگر وہ شخص بھول گیا اور یوسفؑ مزید کئی سال قید رہے۔ ہر تدبیر۔ کامیاب تو نہیں ہوتی! کئی سالوں بعد بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتانے پر آپ کو رہائی کا پروانہ ملا۔ عزیز کی بیوی نے سب کے سامنے اقرار کیا کہ اس کا الزام جھوٹا تھا۔ یوسفؑ کا پھٹا دامن واقعی سچا تھا۔ آج بادشاہ کے پوچھنے پہ انہوں نے کہا کہ ملک کے خزانے ان کے سپرد کر دیے جائیں کہ وہ حفیظ اور علیم ہیں۔ آج پھر انہوں نے تدبیر کی۔ شہ تدبیر!

ہاں ہر تدبیر کامیاب نہیں ہوتی۔ مگر جب عرش والے کی تدبیریں اپنا رنگ دکھانے پہ آتی ہیں تو آپ کا دامن اتار کر موت کے کنویں میں پھینک آنے والے قحط کے دنوں میں آپ ہی کے آگے اپنا دامن پھیلاتے ہیں: اے سردار با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں، اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھرپور غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔

یعقوبؑ کا سوچا آپ نے؟ چاند کے ٹکڑے سا بیٹا ہر کسی کو کہاں ملا کرتا ہے۔ نہیں، ٹکڑا نہیں، پورا چاند، مہہِ کامل۔ نہیں بلکہ رشکِ قمر۔ نہیں بلکہ مسجودِ قمر۔ وہ بیٹا جسے نبوت ملنا تھی۔ اپنی آنکھوں کے خواب لے کر کہاں چل دیا؟ ان کا بیٹا، ان کا یوسف؟ دل اشکوں میں بہتا رہا۔ یوسفؑ کنویں میں غم سہتا رہا۔  آنکھیں سفیدی میں ڈھلتی گئیں۔ یوسفؑ بازاروں میں بکتا رہا۔ صبر کرتے کرتے بھی روح دھواں دھواں ہوتی رہی۔ یوسفؑ پہ تہمتیں لگتی رہیں۔ جگر چوٹیں کھاتا رہا۔ یوسفؑ کی زندانوں میں اذیت بڑھتی رہی۔

ان کا چاند۔ ان کا یوسفؑ! کیسے کوئی باپ جی سکتا ہے جس کو یہ خبر بھی نہ ہو کہ ان کا بیٹا زندوں میں ہے یا مُردوں میں؟ زمانے بہہ گئے۔ یعقوبؑ کی آنکھوں کی طغیانی میں۔ کتنی ہی بار۔ ہمیں بھی گردشِ دوراں اتنا رلاتی ہے کہ آنسو رہ جاتے ہیں مگر آنکھیں نہیں رہتیں۔ سر اور آنکھیں سفید ہو جاتی ہیں مگر غم کی راتیں نہیں جاتیں۔

مگر کب تک؟ آپ اس غم میں روتے ہیں کہ یوسفؑ نے کھانا بھی کھایا ہو گا کہ نہیں، مگر آپ نہیں جانتے کہ آپ کو قحط کے دنوں میں جو کھانا بھیج رہا ہے، وہ یوسفؑ ہے! آپ ہلکان رہتے ہیں کہ آپ کا بےآسرا بچہ ویرانوں میں کہاں بھٹکتا ہو گا مگر آپ نہیں جانتے کہ ملک کی مسندِ شاہی پہ تاجدار جو بیٹھا ہے، وہ یوسفؑ ہے!

   آپ تڑپتے ہیں کہ آپ کا چاند زندہ ہو گا کہ نہیں، مگر آپ نہیں جانتے کہ ہلاکت خیز قحط میں جس کی تدبیر نے اللہ کی رحمت سے ملک بھر کے لوگوں کو زندہ رکھا ہے، وہ یوسفؑ ہے! جب آپ *اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ* کہہ کر ہر غم اللہ کو ہی بتاتے ہیں تو پھر امید نہیں، ایمان رکھیے نا! کہ خون میں ڈوبے سرخ کرتے کے بعد اک اور کرتا بھی آئے گا!

آپ سمجھتے ہیں کہ آزمائش چلی بھی جائے تو بھی ہماری زندگی کے سنہرے دن تو لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ امید رکھیے، جب کرتا آئے گا تو آپ کی آنکھیں بھی لوٹ آئیں گی۔  جس دن آپ کے دونوں بیٹے بچھڑ چکے ہوں گے اس دن کرتا آئے گا اور بہت جلد آپ مسندِ شاہی پہ بیٹھ کر چمکتی آنکھوں کے ساتھ اس خواب کی تعبیر دیکھیں گے۔ گیارہ تارے، چاند اور سورج آپ کے مہہِ کامل کے آگے سجدہ ریز ہوں گے۔

آپ کے بیٹوں کی گردِ کدورت ماضی کی دھول ہو چکی ہو گی۔ ہر غم کو زوال ہے اور ہر پستی کو کمال۔ مصیبتیں کتنی ہی طویل ہوں، دائمی نہیں ہوتیں۔ ہر شخص غم سے نکل آتا ہے، مزا تب ہے جب دامن کو بھر کر نکلے۔ بہت کچھ سیکھ کر نکلے۔ ہم سب ہی اچھے ہوتے ہیں، مگر بات تب ہے جب عقوبت خانوں میں بھی محسن بن کر جئیں۔ مقدر کے اوج کے تارے ان کو ملتے ہیں جو سیاہ راتوں میں بھی خوابوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

غم کا لاوا کیسا ہی شدید ہو، جو صبرِ جمیل کی چادر سے خود کو ڈھانپے رکھتے ہیں، وہ امید کے ٹیلوں پہ دیے جلا رکھیں کہ جب پردہ اٹھے گا، تب ان کا شہزادہ، شہزادہ نہیں، بادشاہ بن چکا ہو گا۔

 دل پگھل جائیں گے، آنکھ کھل جائے گی
خواب منزل حقیقت میں ڈھل جائیں گے
کارواں جو لٹے تھے، سنبھل جائیں گے
راستے منزلوں میں بدل جائیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).