چوڑیاں توڑ دو


ایک دن درس گاہ کی جماعت میں باقی طلبہ و طالبات کے ساتھ پروفیسر صاحب کی آمد کا انتظار کر رہا تھا کہ مقررہ ٹائم سے دس  منٹ بعد کلاس روم میں پروفیسر صاحب کی روایتی انداز میں آمد ہوئی۔ پروفیسر صاحب بیالوجی پر لیکچر دینے کی بجائے ”ڈنگ ٹپاؤ پالیسی“ کے تحت ”عورت ذات“ پر اپنا توہین آمیز فلسفہ بیان کرنے لگے کہ عورت کی ہر جگہ موجودگی اور کام کرنے والی خواتین کی وجہ سے ملک میں بے حیائی بڑھ رھی ہے، ملک میں قدرتی آفات کو بھی عورتوں کے گھروں سے باہر نکلنے سے منسلک کر ڈالا۔ اور خاص طور پر شہر میں ہونے والی ایک تقریب میں اوباش لڑکوں کی لڑکیوں سے بدتمیزی کی وجہ بھی لڑکیوں کے تقریب میں شرکت کو قرار دیا وغیرہ وغیرہ۔

میری والدہ بھی ٹیچر تھیں میں انھی کی سپورٹ کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور پروفیسر صاحب کی باتیں مجھے اشتعال دلا رھی تھیں، مگر اس سے بھی زیادہ قابل تشویش بات یہ تھی کہ کلاس میں موجود طالبات بھی اپنی اس توہین پر ردعمل ظاہر نہیں کر رہیں تھیں۔ آخر میں نے کھڑے ہو کر ممکنہ دلائل سے پروفیسر صاحب سے اختلافی ردعمل بیان کیا۔ پروفیسر صاحب طنزیہ انداز میں مجھ سے مخاطب ہوئے کہ اگر تیری بہن مزدوری کرے گی تو تمہیں کیسا لگے گا؟ میں نے کہا کہ اگر میں گھر کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہوں تو بہن کے محنت مزدوری کرنے میں کیا برائی ہے؟

پروفیسر صاحب دلائل چھوڑ کر  ذاتیات پر حملے کرنے لگے، خیر میں نے بھی کس ممکنہ کارروائی کے ڈر سے دیگر طالب علموں کی طرح خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ میں سمجھ گیا کہ جناب بھی معاشرے کے دیگر افراد کی طرح مرد کی بے جا بالادستی کے قائل ہیں۔ اس قسم کے نظریات کے پس منظر میں مردوں کا یہ خوف ہے، کہ اگر عورتیں اپنے اور اپنے خاندان والوں کے حقوق کے لئے آگے بڑھتی رھیں تو معاشرے میں ان کی بالادستی ختم ہو جائے گی، اس لئے مردوں کی آمریت میں عورت کی اپنے جائز حقوق کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کو وہ ابتدا میں ہی روکنا چاہتے ہیں۔

معاشی حالات نے عورتوں کو مجبور کیا کہ، وہ گھروں سے باہر نکلیں اور اخراجات پورے کرنے کے لئے ملازمتیں کریں۔ ابتدا میں صرف تعلیمی اداروں کی نوکری ہی اچھی سمجھی جاتی تھی مگر، معاشی دباؤ کی وجہ سے اب ہر جگہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

فیصل آباد کی رہائشی مہوش نام کی لڑکی نے ہوش سنبھالا تو اس کے والد وفات پا گئے، اس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لئے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں بس ہوسٹس کی نوکری اختیار کر لی۔ اسی کمپنی کے ایک سیکورٹی گارڈ نے اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بار بار منع کر نے اور سمجھانے پر بھی وہ باز نہ آیا، بلکہ ایک دن تو اس نے اپنی مردانگی کے نشے میں دھت ہو کر مہوش کا ہاتھ پکڑ کر اس سے شادی کرنے کو کہا۔ مہوش کے انکار پر اس شخص نے اپنا پسٹل نکال کر لڑکی کو گولی مار دی۔ بیچاری مہوش آنکھوں میں اپنے غریب خاندان کی قسمت بدلنے کی امید اور عید پر چھوٹے بہن بھائیوں کی ننھی خواہشات پوری کرنے کے خواب سجائے صرف اٹھارہ سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کر گئی۔

زیادہ تر مرد حضرات اپنے خاندان کی عورتوں کو ہر صورت چاردیواری میں محدود کرنے کے خواہاں ہیں اور باقی معاشرے کی عورتوں کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ  مرد کس درسگاہ کا پروفیسر ہو یا کسی ادارے کا سیکورٹی گارڈ۔ میرا خیال ہے کہ ریاست کو تعلیم نہیں ”معیاری تعلیم و تربیت ” فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ مرد حضرات کو اپنے تعصب کی چوڑیاں توڑنے میں مدد ملے اور عورت کو خوف کی تاکہ معاشرتی برابری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے اور کوئی بھی مہوش مردوں کے ڈر سے اپنے آزاد ہو کر اپنے خاندان کے حالات بدل سکے۔

ذیشان اکرم
Latest posts by ذیشان اکرم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).