دیوانوں کے دیس میں تحریک انصاف کی سیاست


اگلے وقتوں کی بات ہے پورے ملک میں قحط سالی تھی پانی نایاب تھا۔ بمشکل تمام میٹھے پانی کا اک کنواں دریافت ہوا۔ لیکن جو بھی اس کا پانی پیتا اس کی ذہنی حالت خراب ہو جاتی۔ جس کی ذہنی حالت خراب ہوتی وہ باقی سب کو پاگل سمجھنے لگتا۔ دو چار چھ کرتے کرتے آدھا ملک پاگلوں سے بھر گیا۔ اب طرفین اک دوسرے کو پاگل کہتے اور سارا دن بہتری کی ترکیبیں سوچتے۔ لیکن ہر روز پانی پینے والوں میں اضافہ ہوا چاہتا تھا۔ کرتے کرتے سارے ملک کی ذہنی حالت مشکوک ہوگئی۔ بس بادشاہ اور اس کے چند وزیر بچے۔ عوام نے شور مچانا شروع کردیا بادشاہ پاگل بادشاہ پاگل۔ بادشاہ کو حکومت و سیاست نہیں آتی۔ ہرروز احتجاج میں اضافہ ہوا چاہتا۔ عوام حکیم طبیب لے کر حاضر۔ بادشاہ کے شاہی طبیب نے اسے کہا حضور اب ہماری بہتری اس میں کہ آپ آب حیات سمجھ کر بھی یہی جامِ فاتر العقلی نوش فرمائیں۔ بادشاہ نے ہر کس و ناچار یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا۔ پس بادشاہ کو حکومت و سیاست آگئی۔

جب تحریک انصاف کو لوٹوں کا طعنہ دیا جاتا ہے مجھے یہ بات یاد آتی ہے۔ تحریک انصاف 1996 معرض وجود میں آئی۔ عمران خان کوئی گمنام سپاہی نہ تھا۔ قبل از عمران خان ایک ہیرو کا درجہ رکھتا تھا۔ دنیا بھر میں اس کے مداح تھے۔ وہ جہاں کھڑا ہوتا وہی لوگوں کا تانتا بندھ جاتا۔ اس نے ورلڈ کپ اور شوکت خانم جیسے کارنامے سرانجام دینے کے بعد سیاست کے شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگایا۔ اس نے معاشرے میں انصاف کی بات کی یکساں نظام تعلیم کی بات کی۔ امریکہ کو براہ راست رگیدا۔ عوام نے اسے سراہا۔ یہ بھی کہا یہ اچھی باتیں کرتا ہے۔ لیکن اسے سیاست نہیں آتی۔ جب الطاف بھائی کا نام سن کر دانتوں کو پسینہ آتا تھا تب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف جگہ جگہ آواز اٹھائی لندن تک اس کے خلاف مقدمے لڑے لیکن عمران خان کو ووٹ نہ ملے۔ کیوں کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔

تحریک انصاف نے اپنا پہلا الیکشن 1997 میں لڑا جس میں عمران خان کو شدید ناکامی کا سامنا پڑا۔ دل برد نہاں شد کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اگلا الیکشن مشرف صاحب کے زیر عاطفت بمشکل عمران کے ہاتھ صرف اپنی سیٹ آئی۔ بینظیر کی وفات کے بعد کے الیکشن کا بائیکاٹ۔ 2013 کے الیکشن میں بھی تحریک انصاف اقتدار کے سنگھاسن سے کوسوں دور رہی۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک بائیس برسوں میں عمران خان اپنی توانائیاں دے چکا۔ تحریک انصاف کے امیدوار زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان اور نسبتاً بہتر کردار کے حامل تھے۔ لیکن جب بھی الیکشن ہوئے ووٹ ہمیشہ چلے ہوئے کارتوسوں کو ملے۔ وہی پرانا بھٹو نواز کا کھیل۔ سرے محل، ٹین پرسینٹ، ڈیزل، کِک بیگ، ماڈل ٹاؤن چھانگا مانگا سمیت کتنے کیسز آئے اور دریا برد ہوئے۔

عوام نے مزے لے کے سب کی کہانیاں سنی لیکن پھر بھی مہر تصدیق انہی پہ ثبت کی جن پہ الزام ثابت تھے۔ اس معاشرے میں امام کے پیچھے نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ووٹ رسہ گیر کو دیتے ہیں۔ چوکیدار کی ایمانداری کی تعریف تو ہوتی ہے لیکن ووٹ اسی چور کو دیا جاتا ہے جس کی اوپری کمائی پہ ہذامن فضل ربی لکھا ہوتا ہے۔ میٹر ریڈ اور معلم کے انتخاب میں معلم ہمیشہ ہارتا ہے۔ اس معاشرے کا تار پو ایسا ہے۔ ہر کوئی ووٹ دیتے ہوئے ذات برادری اور تگڑا امیدوار ڈھونڈتا ہے۔ مؤذن اور تھانیدار کے انتخاب میں جیتے گا صرف ڈنڈا۔ اس معاشرے میں زرداری کو تو استثنیٰ حاصل ہے لیکن کسی، استاد پروفیسر، قاضی، بیمار، بوڑھے، مؤذن یا امام کو نہیں۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ بے حسی سکہ رائج الوقت۔

اب اگر عمران خان نے اپنے گرد الیکٹیبلز اکھٹے کیے ہیں تو قصور اس معاشرہ کا ہے۔ معاشرہ کسی بھی فرد کی تربیت کا جزو لا ینفک ہے۔ معاشرہ شخصیت کی تشکیل کرتا ہے ۔ کوئی بھی رحم مادر سے چور نہیں ہوتا نہ ہی سادھو۔ یہ معاشرے پہ ہے اسے آب دے کے سراب دے ۔ معاشرتی نا انصافیاں محرومیاں فرد کو منطقی حال میں پہنچاتیں ہیں۔ کئی معاشروں میں اگر بچہ پڑھنے میں کمزور ہے تو اس کا معائنہ کیا جاتا ہے ناں کے سکول سے خارج۔ ہالینڈ میں کوئی جیل نہیں۔ مجرموں کی کونسلنگ کی جاتی اور ان کی محرومیاں دور کر کے ان اچھا شہری بنایا جاتا ہے۔ اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے اسلام نے وہ معاشرہ تشکیل دیا جہاں لوگ زکوت سروں پہ رکھ کے پھرتے ہیں لیکن کوئی زکوت لینے والا نہیں۔ بھوکے پیاسے جانور کا بھی خلیفہ وقت جوابدہ۔

ہمارے کئی لوگ قانون کو ہاتھ میں اس لیے لیتے ہیں کہ انہیں معاشرے سے انصاف کی توقع نہیں ہوتی۔ پرانی دشمنیوں کے کئی کیس صرف نظام عدل پہ عدم اعتماد کی وجہ سے ہیں۔ جب قانون بکتا ہے تو معاشرے میں خدیجہ جیسی بیٹیاں انصاف کو روتی ہیں۔ قانون کا پہرہ طاقتوروں کے لیے جب تارعنکبوت ہو تو کسی پہ گلہ نہیں۔ شاہ رخ جتوئی، شاہ حسین، مطفیٰ کانجو فاروق بندیال معاشرتی بے حسی کی جیتی جاگتی نشانیاں ہیں۔

اس معاشرے میں سرعام قاتل عدم شہادتوں کی بنا پر باعزت بری ہوتے ہیں۔ معاشرے کے اجتماعی مسائل ہوتے ہیں۔ کچھ معاشروں میں جھوٹ برائی ہوتا ہے اور کچھ میں لوگ اسے اپنی چالبازی اور احساس تفاخرسمجھتے ہیں۔ جیسے بنارسی ٹھگ مشہور ہیں وہاں پہ چالبازی اس معاشرے کا ہنر ہے۔ بنارسی لوگ محفلوں میں اسے اپنا فن بتاتے ہیں۔ ہندوستان میں پرانے بنارس کے لوگ آج بھی اپنے بڑوں کی دغابازی کے قصے بڑے فخر سے سناتے ہیں۔ جب معاشرہ کامیابی و ناکامی کے اپنے معیار بنا لے تو پھر سب کو اس روش پہ چلنا پڑھتا ہے۔ جو ان اصولوں سے انحراف کرے وہ پاگل سمجھا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ ارسطو نے مروجہ اصولوں سے انحراف کیا اسے خبطی کہا گیا۔ ایک جینیاتی سائنسدان سے پوچھا گیا کیا آج سقراط، ارسطو کے ڈی این اے لے کر ان کی کلوننگ کی جا سکتی ہے۔ سائنسدان نے بڑا خوبصورت جواب دیا۔ اس نے کہا ارسطو بنانے کے لیے وہی معاشرہ ، ماحول چاہیے۔ لمحوں سے صدیوں کا سفر ہوتا ہے۔ ایک لمحے میں سمٹ آیا صدیوں کا سفر۔
لمحوں نے خطا کی تھی
صدیوں نے سزا پائی

بہت مجبور ہو کے ہم نے انداز وفا بدلا۔ اب اگر عمران خان بھی اسی ڈگر پہ چل نکلا ہے تو قصور پورے معاشرے کا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا اسے سیاست نہیں آتی۔ اب اسے پاپی سیاست آگئی ہے تو گلہ کیسا۔
جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو

کیا لوگوں نے اسے تب ووٹ دیا جب اس نے نوجوانوں کو پارٹی ٹکٹ دیا۔ کیا س وقت اسے ووٹ دیا جب اس پارٹی میں کوئی کرپٹ نہیں تھا۔ کپتان کئی سالوں اپنی پارٹی کا ون میں شو رہا۔ ہر چینل پہ وہ اپنی پارٹی کا لیڈر بھی تھا اور حمایتی بھی۔ وہی اپنے منشور کی خارجہ پالیسی بیان کرتا وہی امور خزانہ و داخلہ بتاتا۔ لیکن اسے تانگہ پارٹی نام دے کر ووٹ سکہ بند بد عنوانوں کو دیے۔ ان بائیس سالوں کے ضمنی الیکشنوں سمیت اسے پچاس نصف جن کا پچیس ہوتا ہے اتنی سیٹیں بھی نہیں ملیں۔ پس ثابت ہوا برائی مٹانے کے لیے برائی میں اترنا پڑے گا۔ گندگی صاف کرتے ہوئے کپڑوں پہ چھینٹے تو پڑیں گے۔ یہ وہ کڑوی گولی ہے جوپولیٹیکل کے مطابق بہت دیر سے نگلی گئی۔ ہمارا موجودہ انتخابی نظام بد قسمتی سے معاشرے کا اجتماعی گناہ ہے۔ اس نظام میں ممکن ہی نہیں کوئی فاقہ مست کبھی جیتنے کا سوچے بھی۔ فاقہ کش قیمے والےنان پہ ووٹ تو کیا جان بھی دے دے۔ جمہوریت میں کردار نہیں تولتے بس انگھوٹھے گنتے ہیں۔ ثابت ہوا جمہوریت کی رو سے الیکٹینلز کو ٹکٹ دینا درست ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔ عوام انہی پہ اعتماد کرتی ہے بابا۔

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).