اردشیرکاؤس جی جیسا کوئی دوسرا نہیں


مگر بھلا ہو ڈاکٹرجمال شیخ کا جن کی نائن زیرو تک پہنچ تھی، انہیں بھی میں نے اس بارے میں بتایا تھا۔ ان کی کاوشوں سے دوسرے دن ہی نائن زیرو سے احکامات آ گئے تھے اورایم کیوایم کے لڑکوں نے قبضہ ختم کردیا تھا۔ میں نے کاؤس جی کو فوراً ہی خبر دی تھی جس پرانہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ افسوس یہ ہے کہ وہ عمارت پھر سے میٹروپولیٹن کارپوریشن کی نااہلی اور کسی بڑے بلڈر کی خوشی سے کسمپرسی کا شکار ہورہی ہے، لگتا ایسا ہے کہ اربوں روپوں کی یہ جگہ کسی بے ہودہ کام میں استعمال کی جائے گی اور شہر کی یہ تاریخی عمارت دوسری بہت سی عمارتوں کی طرح برباد کردی جائے گی۔

ڈاکٹر عطاالرحمان نے صدر پرویز مشرف کو قائل کر لیا کہ ہندوستان کا مقابلہ دو نمبر اور تین نمبر عام اور خصوصی (میڈیکل، انجینئرنگ، قانونی یونویرسٹیاں) یونیورسٹیاں کھول کر کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان سے مقابلے کے لیے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اربوں روپے دو اور تین نمبر یونیورسٹیاں بنانے پر ضائع کردیے گئے۔ اسی سلسلے میں ایک دن اس وقت کے سندھ کے وزیر صحت اور لیاقت میڈیکل کالج کے گریجویٹ نے راتوں رات لیاقت میڈیکل کالج کویونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد اس کے مقابلے میں ڈاؤ میڈیکل کالج کو بھی ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے میڈیکل یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ میڈیکل یونیورسٹی کے اعلان کے ساتھ ہی نئی یونیورسٹی کی نئی انتظامیہ نے ڈاؤ میڈیکل کالج کی شکل و صورت کو بگاڑنے کی کاوشیں شروع کردیں جس کے لیے سب سے پہلے کروڑوں روپوں کے بجٹ سے انگریزوں کی بنائی ہوئی شاندار خوبصورت سادہ اور پرشکوہ عمارت کے سامنے ایک اور بے ہودہ عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے سابقہ سند یافتہ ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ہم نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور تجویز دی کہ یونیورسٹی کی عمارت کہیں اوربنائی جائے تاکہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی اپنی انفرادی حیثیت برقرار رہے۔ اگر یونیورسٹی بنانا ضروری ہے تو اسے ڈاؤ کے احاطے میں نہ بنایا جائے۔

انتظامیہ نے ہماری بات کو مکمل طور پر رد کرکے اپنے فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا۔ ہم لوگوں نے اپنے پرانے کامریڈ اور شہر کے عوام دوست وکیل جناب شوکت حیات کی زیروکالت ہائی کورٹ میں مقدمہ کرکے عمارت کی تعمیر رکوا دی۔ میں کاؤس جی کے گھرگیا۔ اورانہیں بھی یہ بات سمجھائی جو فوراً ہی ان کی سمجھ میں آگئی۔ مجھے یاد ہے وہ اُسی وقت اپنی گاڑی میں میرے ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج آئے اور بڑی سی پرانی شاندار عمارت کے سامنے بنے ہوئے بہت گہرے کھڈے کو دیکھا جہاں نئی بے ہودہ عمارت بنائی جارہی تھی۔ انہوں نے سخت افسوس کا اظہارکیا کہ نہ جانے یہ کون آرکیٹیکٹ اور انجینئر ہیں جویہ عمارت بنانے پر تیار ہوگئے ہیں۔ پھر کہنے لگے روپے میں بڑی طاقت ہے۔ آج کل کے لالچی ’’کاؤ بوائے‘‘ آرکیٹیکٹ اور انجینئر سارے شہر کو تباہ کررہے ہیں نہ انہیں ماحول سے غرض ہے اورنہ ہی شہرکی پرانی عمارتوں کے حسن سے دلچسپی ہے۔ ’’یہ سالا لوگ کدھر سے آگیا ہے‘‘ وہ بڑبڑائے تھے۔

ایک ہفتے کے بعد میں دوبارہ انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا اور کہنے لگے تو یہ بلڈنگ بننے سے نہیں رکوا سکے گا۔ وہ سالا گورنر ہے نا عشرت العباد وہ سالا پرویز مشرف کا آدمی ہے، وہ اس بلڈنگ کے پیچھے ہے وہ حرامی کسی کا نہیں سنے گا۔‘‘ کاؤس جی صحیح کہتے تھے۔ بلڈنگ کی تعمیر کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت ایک اپنی مرضی کی کمیٹی بنائی گئی۔ کہا گیا کہ نئی بلڈنگ کی ڈیزائن میں تبدیلی کردی گئی ہے اور اسے پرانی عمارت کی طرح سے ہی بنایا جائے گا اور ایک طاقتور گورنر کے حکم اور سرپرستی میں سرھگ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرانی عمارت کے سامنے ایک نہیں کئی عمارتیں کھڑی کردی گئیں۔ کاؤس جی نے کئی دفعہ گورنر عشرت العباد کے عجیب و غریب کمالات کے بارے میں لکھا، ان کا سب سے بڑا کمال تو یہ تھا کہ اپنی طویل دورِ گورنری میں انہوں نے سندھ کی کسی بھی یونیورسٹی میں میرٹ کی بنیاد پر ایک بھی وائس چانسلر کا تقرر نہیں ہونے دیا اور کسی بھی اچھے تعلیمی ادارے کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

کاؤس جی میرٹ کے خلاف اقدامات کے سخت مخالف تھے۔ تعلیمی اداروں میں میرٹ کی خلاف ورزی، کے ڈی اے میں میرٹ کی پامالی، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں میرٹ کا جنازہ، اسٹیل مل میں میرٹ کی تباہی، پی آئی اے میں میرٹ کا جلوس اور حکومتی اداروں میں میرٹ کا مکمل فقدان ، پورٹ قاسم میں میرٹ کی بے قاعدگیاں، تعلیمی اداروں میں میرٹ کا ستیاناس۔ کاؤس جی اپنی ساری عمر ہر ہفتے پابندی سے بلاجھجک بنا خوف بہادری کے ساتھ لکھتے رہے اور خوب لکھتے رہے۔ ہر غلط فیصلے پر احتجاج کیا، نہ پیپلزپارٹی سے ڈرے نہ ایم کیوایم کی دھمکیوں سے بھاگے۔ جماعت اسلامی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اورنوازشریف کی کوتاہ نظری کا پول کھولتے رہے اور جہادیوں کے خلاف بھی پابندی سے لکھتے رہے۔ انہوں نے ضیاالحق کے خلاف لکھا، جام صادق کو آڑے ہاتھوں لیا، سیاستدانوں کو معاف نہیں کیا۔ تعلیمی وڈیروں کے خلاف لکھا، نیوکلیئر سائنس دان ڈاکٹر قدیر خان کی زیادتیوں کی نشاندہی کی ، یہاں تک کہ اپنی ہی کمیونٹی کے بہرام آوری کے خلاف ان کی غیرقانونی سرگرمیوں پر سخت کالم لکھے۔

ان کے دل میں بھی ہمارے جیسے بہت سے لوگوں کی طرح پرویز مشرف سے ہمدردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ سیاستدانوں کے خلاف نفرت اور زبردست عوامی مقبولیت کے سہارے پرویز مشرف کچھ اچھے بنیادی کام کرجائیں گے مگرپرویز مشرف بھی بندہ شناس نہیں تھے۔ نہ وہ شوکت عزیز کوسمجھے نہ ہی وہ نسیم اشرف اور طارق عزیز کی موقع پرستی کا اندازہ کرسکے اور افتخارچوہدری کے معاملے میں تو انہوں نے حد ہی کردی۔ کاؤس جی نے ہر موقع پر ان کے عقل کے خلاف اور ذاتی فائدے کے لیے کیے جانے والے فیصلوں پر کالم لکھے۔ کاش انہوں نے کاؤس جی کے کالم پڑھے ہوتے توآج کل ہم لوگ اس نام نہاد جمہوریت کے ڈرامے سے محفوظ رہتے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3