اردشیرکاؤس جی جیسا کوئی دوسرا نہیں


کاؤس جی ترقی پسند تھے، قائداعظم محمد علی جناح کی طرح رواداری کے قائل تھے، وہ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے حقوق ملیں۔ انہیں صاف پانی، صاف ہوا، صاف غذا، انصاف اور ذمہ دار حکمران ملیں وہ عورتوں کے حقوق کے زبردست حامی تھے، انہوں نے کئی کالم لڑکیوں اور عورتوں کے جنسی پامالی اور ماؤں کی شرح اموات کے بارے میں لکھے۔ کراچی کے لیے ان کے دل میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ اورجہانگیر پارک کے بارے میں وہ بار بار لکھتے تھے۔ جہانگیر پارک پر مسجد بنا کر قبضے کے خلاف انہوں نے بلاخوف و ڈر کے لکھا۔ موجودہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے جہانگیر پارک کے بچے کچھے حصے کو بحال کر کے اچھا کام کیا ہے۔ کاش وہ کاؤس جی کے کراچی کے بقیہ باغات کو بھی بحال کریں۔ کے ڈی اے، کے بی سی اے کو لگام دیں، بلڈنگ مافیا کو سنبھالیں، سڑکوں پر توجہ دیں، سمندر کی عزت کریں اور تقسیم سے پہلے کی بنی ہوئی پرانی عمارتوں کو بربادی سے بچائیں۔ میں اس موقع پر ایک دو اور واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

ایک دن صبح صبح میں انہیں اورنگی کے قطر ہسپتال لے گیا، وہاں کا مڈوائفری اسکول دکھانے کے بعد میں قریب میں ہی ایک اسکول لے گیا جسے ایک ایماندار اور شریف مولانا صاحب اپنے وسائل سے چلارہے ہیں اور بچوں کو مناسب جدید سائنسی تعلیم دی جارہی ہے، اس وقت اسکول کی عمارت کے ساتھ طلباء کے لیے بنے ہوئے کھیل کے میدان پر آہستہ آہستہ قبضہ ہورہا تھا اوربہت سارے لوگوں کی اس پر نظر تھی اور ابھی بھی ہے۔ انہوں نے اسکول بھی دیکھا اور میدان بھی دیکھا، ان کا خیال تھا کہ میدان کے چاروں طرف فوری طور پر دیوار بننی چاہیے۔ انہوں نے اورنگی کی افراتفری پر کالم لکھا اور کوشش کی کہ اسکول کی زمین پر قبضہ نہ ہو۔

اس دورے کے بعد ہم جب ان کے گھر پہنچے تو ان کے پڑھے لکھے خانساماں نے مچھلی، بروکلی، گاجر اور آلوؤں کا بھرتہ بنایا ہوا تھا۔ وہ میری ان سے طویل ترین ملاقات تھی۔ وہ محبتوں کے ساتھ اپنے مخصوص لہجے میں سالا، حرامی شیم لیس جیسے لفظوں کی آمیزش میں پرانے کراچی کے قصے سناتے رہے۔ چتومل سوبھراج کا خاندان کہاں رہتا تھا، سیون ڈے ہسپتال کیسے بنا، ہولی فیملی ہسپتال کی زمین کس نے دی تھی، یہودیوں کے سینی گاگ میں ایک قتل ہوا تھا، کراچی کے یہودی کیسے رہتے تھے، صدر میں عیسائیوں کی کیا سرگرمیاں ہوتی تھیں، کراچی میونسپلٹی کیسے کام کرتی تھی۔ جانوروں کا ہسپتال کس نے بنایا، ٹراموے کمپنی کیسے بنی، پورے شہر میں جانوروں کا کیسے خیال رکھا جاتا تھا، انگریزوں نے کراچی کے لیے پانی کا انتظام کیسے کیا تھا، کراچی کے ڈسٹرکٹ عیسائی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ڈریگو نے وائسرائے کو ایئرپورٹ پر روک دیا تھا۔ وہ کراچی کے میئر نسروان جی کے زبردست دلدادہ تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ میونسپلٹی کس کس طرح سے کراچی کے لیے کام کرتی تھی۔ مگر سالا سب کچھ تباہ ہوگیا کراچی کا۔

وہ حقیقت میں کراچی کے مستقبل سے مایوس تھے۔ ان کی اس دن کی گفتگو اور ان کے بیان کیے گئے کئی واقعات کی بنیاد پر میں نے کچھ افسانے لکھے اور ایک کتابی صورت میں شائع کیا۔ یہ کتاب میں نے کاؤس جی کے نام ہی کی اوراس کی رونمائی میں انہیں ہی مہمان خصوصی بنایا۔ وہ آئے، شرکت کی، وہ عظیم لکھاری تھے لیکن تقریر کرنے سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس رونمائی میں بھی انہوں نے ایک جملے میں اپنی تقریر ختم کردی۔ اس دن جب وہ جانے لگے تو اس کتاب کی دو سو کاپیاں بھی خرید کر لے گئے۔ میں نے بعد میں ان سے پوچھا کہ اتنی کتابیں انہوں نے کیوں خریدیں۔

ارے سالا لوگوں کو دینے کے لیے خریدا اورکیوں خریدا تم نے اس دن بہت اچھا اسٹوری پڑھا تھا کتاب سے۔ میرا خانساماں بھی پڑھتا ہے تیرا دو اسٹوری، مجھے پڑھ کر سنایا ہے اس نے۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے ان کی ای میل ملی جس میں انہوں نے کراچی کے یہودیوں کے سینی گاک مگین شلوم کے بارے میں میری لکھی ہوئی کہانی کی تعریف کی۔ وہ چھوٹی سی ای میل میں کبھی ڈیلیٹ نہیں کرسکوں گا۔

آج کی تقریب کی تیاری کے لیے میں ان کے چھوٹے بھائی سائرس کاؤس جی سے ملنے ڈاکٹر شعیب سوبھانی کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ وہ محبت سے ملے، اپنے بھائی کے بارے میں بہت ساری باتیں کیں، انہوں نے بتایا کہ ارد شیر جانوروں سے بہت محبت کرتے تھے، ان کے پاس چار کتے، ایک بلی، ایک طوطا اور اک نایاب پرندہ تھا جو انہوں نے بحرین کے ایک شیخ سے لیا تھا وہ پرندہ ابھی بھی زندہ ہے مگر اندھا ہوچکا ہے۔ ان کے کتوں اور بلیوں سے میں بھی کئی بار ملا تھا اورمجھے اندازہ تھا کہ وہ کیوں کراچی میں ریڈیو پاکستان کے برابر انگریزوں کے بنائے ہوئے جانوروں کے ہسپتال کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں، جس پر ابھی بھی کئی بے ضمیر، بے شرم سیاستدانوں، بلڈنگ مافیا اور طاقتور لوگوں کی نظریں ہیں۔ باتوں باتوں میں بوڑھے سائرس کاؤس جی نے ایک ایسی بات بول دی جس کی چبھن شاید بہت دنوں تک محسوس ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ کاؤس جی فاؤنڈیشن نے بہت سارے اداروں کو کام چلانے کے لیے بے شمار عطیات دیں لیکن انہیں اور ارد شیرکو اس بات کا بڑا افسوس رہا کہ یہ ادارے عطیات کا حساب کتاب نہیں دیتے ہیں۔ وہ صحیح کہتے تھے بے شرم لوگوں میں شرم نہیں ہوتی ہے۔

ارد شیرکاؤس جی کراچی کے شہری تھے جنہوں نے کراچی سے کچھ لیا نہیں بلکہ اپنی جدی پشتی دولت سے، اپنے علم اور اپنی بہادری سے اور کالم لکھنے کی خداداد صلاحیت سے کراچی کے لیے وہ سب کچھ کیا، جو ایک دیانتدار، شریف انسان کرتا ہے وہ ہمارے شہر کے صرف شہری نہیں بلکہ عظیم ترین شہری تھے۔ ان کے جانے کے بعد ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ اور دور دور تک سناٹا ہے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3