کیا ایک زرداری خیبر پختونخوا میں بھی  بھاری ہے؟


اوریا مقبول جان صاحب ایک مشہور و معروف بیروکریٹ رہ چکے ہے۔ آج کل کالم لکھتے اور ٹی وی پر پروگرام کرتے رہتے ہیں بلکہ کچھ ستم ضریف تو کہتے ہے کہ اوریا صاحب ریٹائرمنٹ سے پہلے ڈرامے لکھا کرتے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ڈرامے کرتے رہتے ہیں۔

اوریا صاحب نے چند سال پہلے ایک کالم لکھا تھا جس میں پاکستانی عوام کو خوشخبری دی گئی تھی کہ ستارہ شناسوں کے مطابق پاکستان پر چھائی ہوئی نحوست 27 دسمبر 2007 کو ختم ہو گئی ہے اور پاکستان کا اچھا دور شروع ہو چکا ہے۔ اب پوری دنیا میں حالات حاضرہ سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھنے والوں کے ذہن میں 27 دسمبر 2007 کے حوالے سے ایک ہی واقعہ بلکہ حادثہ ذہن میں آئے گا اور وہ حادثہ بدقسمتی سے پاکستان ہی میں ہوا تھا جی ہاں اُسی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا۔ اب محترمہ کی شہادت سے نحوست گئی ہے یا آئی ہے یہ تو وقت ثابت کرےگا۔ البتہ محترمہ کے جانے سے ایسا لگتا ہے پی پی پی پر نحوست مسلط ہو گئی ہے۔

محترمہ کی شہادت پر آصف علی زرداری صاحب پی پی پی کے شریک چئیرمین بن گئے بلکہ حقیقت میں پی پی پی کے بلا شرکت غیرے مالک و مختار بن گئے۔ محترمہ کی شہادت کی وجہ سے پی پی پی کو اقتدار مل تھا، اقتدار لولا عوام نے دیا تھا جبکہ لنگڑا زرداری صاحب نے کر دیا تھا۔ اقتدارکے پہلے ہی دن سے بھٹو صاحب کے نعرے رخصت ہونے لگے اور بی بی کے نعرے بلند ہوئےاور کچھ عرصہ بعد مصنوعی جیالوں کے شور میں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر کے بجائے ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بلند ہوا۔

اس نعرے نے 2013 کے انتخابات میں پی پی کو کہا پہنچا دیا؟ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ حالات بدل گئے مگر زرداری صاحب نہیں بدلے کچھ عرصے کے لئے بوجوہ جلا وطن بھی ہوئے۔ جلا وطنی کے اٹھارہ ماہ میں پتا نہیں کونسا نیا سبق پڑھا یا حاصل کیا کہ آتے ہی اگلی واری پھر زرداری کا نعرہ بلند کیا اور بلوچستان حکومت کو کوالی فائنگ راونڈ سمجھتے ہوئے رخصت کر دیا اور پھرباپ کی مدد سے سینٹ میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے بلند ہوئے۔ (یہاں باپ سے مراد بلوچستان میں نئی تخلیق شدہ جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ہے)۔

سنجرانی ایپیسوڈ کے بعد زرداری صاحب کے اعتماد میں کافی اضافہ ہوا اور 2018 میں پھر سے حکومت بنانے کے دعوے کرنے لگے ہے۔ پنجاب میں پی پی کی حالت کا تو سب کو پتا ہے۔ ہم ذرا خیبر پختون خوا کا جائزہ لیتے ہے۔

نئی حلقہ بندیوں کے حساب سے کے پی کے 39 قومی اسمبلی کی نشستیں بنتی ہے اور پرانے فاٹا کی 12 سیٹیں ساتھ کر دی جائے تو کل نشستیں 51 بن جاتی ہے۔ سب سے پہلے ہزارہ کی جانب چلتے ہے۔ اس حصے سے کبھی بھی پی پی قومی اسمبلی میں نمائیندگی حاصل نہیں کر پائی ہے نہ کر پائے گی کیونکہ ووٹر پہلے ہی سے نہیں تھے اور اس بار تو پی پی کے امیدوار ہی نہیں ہیں۔

پھر چلتے ہیں جنوبی اضلاع کی طرف جنوبی اضلاع میں ڈی آئی خان ہی وہ واحد ضلع ہے کہ جہاں سی پی پی اپنا ایم این اے لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ 2013 میں وقار احمد خان جیسے غیر جیالے نے بھی 67000 ووٹ لئے تھے اور وہی کے پی اور فاٹا سے پی پی کے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار ثابت ہوئے تھے۔ اس بار بھی اگر تگڑا امیدوار کھڑا کیا گیا تو چانس بن سکتا ہے۔
اس کے بعد ملاکنڈ ڈویژن چلتے ہے، بونیر میں پی پی کھبی تھی ہی نہیں اور شانگلہ و سوات میں مرحوم ہو چکی ہے۔ چترال وہ واحد ضلع ہے کہ 2013 میں یہاں سے منتخب ہونے والے دونوں ایم پی ایز جیالے تھے مگر قومی اسمبلی کے حلقہ پر مظبوط امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے سیٹ ہار گئی تھی، اچھا امیدار چترال کی سیٹ این اے ون پر اب بھی کامیابی دلا سکتا ہے۔

چترال سے متصل اپر دیر ہے اور جہاں سے سئنیر جیالے نجم الدین خان الیکشن لڑیں گے اور اُن کے جیتنے کے امکانات کافی ہیں۔ لوئر دیر جو کسی زمانے میں پی پی کا گڑھ تھا وہ خلا اب اے این پی اور پی ٹی آئی پر کر چکی ہے۔ لوئر دیر سے ملحقہ ملاکنڈ این اے 8 کا حلقہ ہے جہاں سے بلاول بھٹو الیکشن لڑ رہے ہے اور اگر زرداری صاحب اس الیکشن سے دور رہے تو بلاول صاحب جیت سکتے ہے۔

اب آتے ہے وادی پشاور کی طرف جہاں چارسدہ اور صوابی میں تو پی پی کا وجود ہی ملنا مشکل ہے جبکہ نوشہرہ میں امیدوار مشکل سے ہی ملیں گے۔ البتہ پشاور میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں پراچھے امیدوار تھے جن میں نور عالم خان پی ٹی آئی کو پیارے ہو چکے ہے اور ارباب عالمگیر صاحب کی حالت پتلی ہے۔ ضلع مردان میں این اے 20 وادی پشاور کی واحد سیٹ ہے جس پر پی پی کا ووٹ بینک موجود ہے مگر امیدوارکسی اور حلقے سے درآمد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کامیابی کے امکانات کم ہے جبکہ مردان کے باقی حلقوں پرخیرخیریت ہے۔

اب رہ گیا فاٹا تو پورے فاٹا میں دو ہی سیٹیں ہے جہاں پی پی کے پاس امیدوار ہے۔ باجوڑ جہاں سے پی پی فاٹا کے صدر اور پرانے جیالے اخون زادہ چٹان امیدوار ہے۔ چٹان صاحب مقابلے میں ضرورہے مگر مالی رکاوٹوں کی وجہ سے پیچھے رہ سکتے ہے۔ دوسری سیٹ کرم کی ہے جہاں مخصوص حالات کی وجہ سے پی پی ایک سیٹ نکال سکتی ہے۔

اگر ہم اوپر دیے گئے تجزئےکی روشنی میں دیکھے تو کے پی کی 51 قومی اسمبلی کی سیٹوں میں صرف 8 پر پی پی کے پاس مظبوط امیدوار ہیں اور اُن میں صرف 4 یا زیادہ سے زیادہ 5 ہی جیت سکتے ہیں۔

اس کے برعکس زرداری صاحب کوسینٹ الیکشن کے بعد سےکے پی سے کافی امیدیں ہیں۔ اب یہ تو 25 جولائی کو ہی پتہ چلے گا کہ زرداری صاحب کے پی پر بھاری ہوتے ہے یا کے پی ایک زرداری پر بھاری پڑتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).