نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی رپورٹ کے پرخچے اڑا دیے


پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف لندن فلیٹس کے مقدمہ میں ان کے وکیل خواجہ حارث نے تعزیرات پاکستان کے تحت بار ثبوت، ملزم کی بجائے استغاثہ پر ہونے کے قانونی دلائل دیتے ہوئے جے آئی ٹی کے اختیار کو بھی چیلنج کیا اور کہا کہ نتیجہ نکالنے کا اختیار صرف عدالت کو ہوتا ہے۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ فریق صفائی نے جے آئی ٹی رپورٹ کا متعلقہ حصہ چیلنج کرنے کی بجائے پوری رپورٹ ہی چیلنج کردی ہے ۔

جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف لندن فلیٹس والے مقدمہ پر سماعت کی۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے تیسری پیشی پر حتمی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پانامہ جے آئی ٹی کی حیثیت ایک تفتیشی ایجنسی جیسی تھی، ایسی ہر ایجنسی کی تفتیش کیلئے قانون وضع ہوتا ہے جس میں طے کیا جاتا ہے کہ کون سی شہادت قابل قبول ہوگی۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو تفتیش کیلئے نیب اور ایف آئی اے جیسا اختیار دیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت تفتیش اور عدالتی کارروائی دو الگ مراحل ہیں۔ عدالت نے تفتیشی مواد کی روشنی میں نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے لیکن تفتیشی ایجنسی ہی اگر نتائج نکال دے تو پھر استغاثہ کا کردار کیا رہ جاتا ہے؟ جے آئی ٹی کے سربراہ نے جو نتائج اخذ کئے وہ قابل قبول شہادت نہیں۔ دفعہ 161 کے تحت رکارڈ بیان کو استغاثہ اپنے مقاصد کے لئے نہیں بلکہ ملزم اپنے حق کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ کسی بیان کی صرف آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو ثبوت نہیں مانا جا سکتا جبکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ صرف ایک تفتیشی رپورٹ ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے وہ چیزیں بھی پیش کیں جن کا مقدمہ سے تعلق نہیں تھا ،کیپیٹل ایف زیڈ ای کمپنی اور شریف خاندان کی فنانشل اسٹیمنٹ کا بھی اس مقدمہ سے تعلق نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ تفتیشی رپورٹ میں رائے ہوتی ہے، اسی لیے اسے قابل قبول شہادت نہیں مانا جا سکتا۔ اس موقع پر جج محمد بشیر نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کا کوئی متعلقہ حصہ چیلنج کرتے، آپ نے تو پوری رپورٹ ہی چیلنج کردی۔ کیس کے اس مرحلے پر اب یہ معاملہ طے کرنا ہوگا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ پر پہلے بھی اعتراض اٹھاتے رہے تھے۔ واجد ضیا نے جن گواہوں کا ذکر کیا انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جبکہ قانون شہادت کے مطابق ان گواہوں کا عدالت میں پیش ہونا ضروری تھا۔ جے آئی ٹی میں تو پورا تھیسس لکھا گیا ہے کہ فلاں نے فلاں جھوٹ بولا، ایسا تعین توعدالت کرتی ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ کے رائے والے حصے پر حتمی دلائل دے دیئے ہیں ، اب دفعہ 161 کے بیان والے رپورٹ کے دوسرے حصے اور مواد والے تیسرے حصے پر عدالت کی معاونت کرنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).