باکو کی باتیں
باکو کا سورج عین سر پر طلوع ہوتا ہے۔ وجہ یہ بنی ہے کہ ہوٹل کی کھڑکیاں شیشے کی ہیں اور ان پر جو جھالردار پردے لٹکائے گئے ہیں وہ مہین ہی نہیں سفید بھی ہیں۔ سورج نکلتے ہی روشنی کمرے میں آکھڑی ہوتی ہے اور اٹھے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ ہے تو مشکل مرحلہ لیکن بھلا ایک سیاح کے لئے صبح صبح اٹھ جانے کے بندوبست سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے؟ تو بمشکل اٹھتے ہیں، ہوٹل والوں کو کوستے تیار ہوتے ہیں اور جب ہوٹل کا دیو قامت دروازہ دھکیل کر باکو کی گلی میں قدم رکھتے ہیں تو دل سے بے اختیار ہوٹل کے سفید پردوں کے لئے دعا نکلتی ہے۔
تو اے مہربان قدردان، قصہ کچھ اس طرح ہے۔ باکو کی صبح میں باد صبا کے اثرات قائم ہیں، گلیوں اور راستوں پر اکا دکا مرد و خواتین آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں، آسمان پر بادل ادھر سے ادھر مٹر گشت میں مصروف ہیں، کسی وقت دھوپ نکلتی ہے تو بھلی لگنے لگتی ہے۔ اپنے ہاں کی چھپر پھاڑ دھوپ کی یاد آتی ہے تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔ نظامی گنجوی میوزیم کے بازو میں فاؤنٹین اسکوائر کے میدان میں رکا ہوا حیرت و تجسس میں مبتلا سیاح جب شہر کو آنکھ بھر کے دیکھنے لگتا ہے تو اسے لگتا ہے وہ کسی جادونگری میں پہنچ چکا ہے۔ اس کی نظریں جب گلی بازار میں موجود مجسموں، چھوٹے اور حسین باغات کے اندرکھلتے تازہ پھولوں، ابلتے فواروں، کتاب گھروں، نوادرات کی دکانوں، اچری شہر کی اترتی چڑھتی پتھریلی سیڑھیوں، منقش دروازوں اور خوبصورت عمارات پر پڑتی ہے تو وہ غریب الوطن پتھرا سا جاتا ہے۔ اس کا من چاہتا ہے گھر گھاٹ تیاگ کر وہیں درخت کی چھاؤں میں رکھی بینچ پر آسن جما لے اور سادھو بن جائے۔
بالخصوص نظامی اسٹریٹ اور فاؤنٹین اسکوائر کے آس پاس سی ویو بلیوارڈ تک کا علائقہ تو شداد کی جنت لگتا ہے۔ اس جگہ تزئین شدہ بازاروں کے ہر دو اطراف گلشن کی طرح دلفریب کیفے بنے ہوئے ہیں۔ ایسے دلپذیر کہ ان کے اندر بیٹھ کر کھانے اور لطف لینے کے خواب کے پیچھے عمر بتائی جا سکتی ہے۔ ان کیفیز میں شیشے کی دیوار کے پیچھے نازک پھولوں کی قربت میں کرسی پر ٹیک لگائے جب باہر نظر جاتی ہے تو ایسے حسین و جمیل چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں انسان بے یقینی سے اپنی انگلیاں چبا ڈالے۔ ان چہروں پر جو مسکراہٹ پھیلی ہے اس کا تو کچھ مت پوچھیں۔ انہیں دیکھ کرخوشی کے ارزاں ہونے پر یقین ہونے لگتا ہے اور اس معاملے میں اپنی تہی دامنی کا احساس افسوس میں مبتلا کرتا ہے۔
پھر نگاہ بکلاوا اور آذری چائے پر پڑتی ہے جو ویٹر سامنے ٹیبل پر آکر رکھ رہا ہے۔ بکلاوے کی لذت اور چائے کی خوشبو طبیعت میں تازگی کے اثرات لانے لگتی ہے۔ افسردگی سے نجات پا کر قدم پھر چل پڑتے ہیں۔ نظامی گنجوی قومی میوزیم برائے ادب کے شاہکار دروازے کے نقش و نگار کو دل میں اتارتے فاؤنٹین اسکوائر کی وسیع میدان میں آنکلتا ہوتا ہے جہاں لکڑی کے دوکانوں کی ایک مختصر قطار قدم روک دیتی ہے۔ یہاں پینٹنگز بنائی اور بیچی جا رہی ہیں۔ منظر یہ ہے سبز واسکٹ پہنے ایک سفید بالوں والا مصور برش پکڑے کسی منظر کو عدم سے وجود میں لا رہا ہے۔ شام کی سنہری دھوپ کی شعاع جب اس کے بالوں پر ٹکتی ہے تو گویا ایک اور منظر مکمل ہونے لگتا ہے۔
آگے نظامی اسٹریٹ کی رونق زوروں پر ہے۔ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ دوکانوں کے اندر بھی خوب رش ہے۔ جگہ جگہ جھانکنے کو دل کرتا ہے۔ بے فکری سے اندر جاتے ہیں۔ جاتے ہی “سلام” لفظ سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ چیزوں کو دیکھتے پرکھتے ہیں۔ سیلز گرل یا بوائے سے ہزار حجت اور سوال کرتے ہیں۔ مجال ہے جو ایک شکن آجائے۔ حالانکہ خواہش رہی ایک شکن آنے کی۔ خیال رہا کہ شاید اس سے چہرہ اور دلفریب ہوجائے مگر خیال خیال ہی رہا۔ بقول میر تقی میر،
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
- خاص محبوبین کے لئے - 16/06/2023
- روڈ بلاکنگ، بے نیاز نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور مجبور عوام - 02/09/2022
- حیدر آباد کا مسیحا ڈاکٹر اور مختار کار کا چھاپہ - 12/05/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).