سوشل میڈیا پر پھیلتی ’’علمی جہالت‘‘


آج کا دور سوشل میڈیا کا دور کہلاتا ہے۔ ہر ایک کی زندگی کسی نہ کسی رنگ میں سوشل میڈیا سے منسلک ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، وٹس ایپ وغیرہ کا استعمال ہم میں سے اکثر لوگ کرتے ہیں۔ آج کے دور میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو اپنے ما فی الضمیر کو بیان کرنے کی اجازت نہیں۔ یا پھر وہ حق کے لئے آواز بلند نہیں کر سکتا کیونکہ سوشل میڈیا ہمیں یہ سہولت فراہم کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ہزاروں فائدے ہوں گے اور لاکھوں نقصان ہوں گے۔ ہر ایک اپنے ظرف اور عقل کے مطابق اس کا استعمال کرتا ۔ لیکن ایک چیز جو بہت خطرناک ہے اس کو میں ’’علمی جہالت‘‘ کا نام دینا پسند کرتا ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک خبر کو لاکھوں لوگوں تک منٹوں میں پہنچایا جا سکتا ہے لیکن یہی کام افواہوں اور غلط افواہیں پھیلانے میں بھی جاری ہے۔ ایک طریق جو سوشل میڈیا پر عام ہوتا جا رہا ہے جیسے میں ’’علمی جہالت‘‘ کہتا ہوں و ہ ہے بغیر کسی حوالے کے کوئی علمی بات پھیلانا۔ اس میں سب سے بڑھ کر جو کام کیا جاتا ہے اس کو مذہب کا لبادہ اڑا دیا جاتا ہے۔ ایسی احادیث جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ یا جو ثقاہت کے میعاروں پر پورا نہیں اترتیں ان کو بغیر کسی کتاب کا حوالہ دئیے پھیلایا جاتا ہے۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ اگر ایسی باتیں جو حدیث کے زمرہ میں نہیں آتیں ان کو حدیث کہہ کر پھیلا دیا جاتا ہے۔ کئی اقوال ملیں گے جو حضرت علیؓ کے نام سے پھیلائے جا رہے ہوں گے لیکن حضرت علی نے یہ کب کہا، کس موقعہ پر کہا، کس کتاب سے یہ لیا گیا اس کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہوتا۔ ہمارے لوگوں کا مزاج ایسا ہے کہ مذہبی تعلیم سے وہ تقریباً نا بلد ہوتے ہیں۔ لیکن مذہب سے عقیدت رکھنے کی بنا پر مذہب کے نام پر ہر چیز کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی اپنی بات کو پھیلانا چاہتا ہے تو کسی بزرگ کے نام پر آگے پھیلا دیتا ہے جبکہ اس بزرگ کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بات اس نے کبھی کی بھی ہے۔

کچھ دن قبل فٹبال کا ورلڈ کپ شروع ہوا تو ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک فٹ بال پر ہر ملک کا پرچم تھا۔ اور سعودی عرب کے پرچم پر کلمہ لکھا تھا۔ اس تصویر کو اس لئے پھیلایا جا رہا تھا کہ یہ ورلڈکپ میں استعمال ہونے والے فٹبال ہیں۔ اس لئے مسلمان ملک ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کریں۔ یہ بالکل غلط بات تھی۔ کونسا ایسا ملک ہے جو اپنے ملک کے پرچم کو پیروں تلے روندتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ وہ صرف سوونئیر فٹبال تھے جس کا مقصد اُن ممالک کو اعزاز بخشنا تھا جو اس ورلڈکپ میں شامل ہیں۔ اسی طرح کا غلط پراپیگنڈا ہر روز سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔

سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کا ایک خطرناک پہلو فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی بھی ہے۔ اگر آپ کسی مکتب فکر سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کے خلاف زہر افشاں پوسٹس جو مسخ زدہ معلومات پر مبنی ہوتی ہیں ان کو اتنا عام کیا جاتاہے کہ الامان والحفیظ۔

آج کل دنیا میں سوشل میڈیا سے رائے کی تبدیلی کا کام بہت زیادہ لیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو جھوٹ اور زہر افشانی کے لئے استعمال کیا جائے۔ آپ اگر کسی بات سے اختلاف رکھتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن اپنی رائے کی ترویج کے لئے ٹھوس بنیادوں پر بات ضروری ہے۔ اگر آپ نے کوئی اچھی بات بھی شئیر کرنی ہے تو اس کا حوالہ ضرور دیں۔ تاکہ اگر کوئی اس کی تصدیق کرنا چاہے تو مشکل نہ ہو۔ سوشل میڈیا کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک پوسٹ اس قدر تیزی سے اتنی زیادہ شئیر ہو جاتی ہے کہ اس کو بنانے والے کا پتہ لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر جھوٹی خبریں فیک اکاونٹس سے شیئر ہوتی ہیں اس لئے بھی عام آدمی کے لئے اس کو پھیلانے والے کا پتہ لگانا مشکل ہے۔

سوشل میڈیا کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لئے ہر صارف کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی خبر یا معلومات کو آگے پھیلانے سے پہلے اس کی صداقت و ثقاہت کی تسلی ضرور کر لے۔ اور اگر کوئی خود پوسٹ بنائے تو اس میں شئیر کی جانے والی بات کا حوالہ ضرور دے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم جھوٹ پھیلانے کا بھی ارتکاب کر ہے ہوں گے اور لوگوں کی گمراہی کا موجب بھی بن رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).