گوگول، بانو قدسیہ اور خواجگان لاہور


\"wajahat\"آپ روزنامہ جنگ کا یہ کالم پڑھ رہے ہیں۔ آپ اس ملک کے تعلیم یافتہ اور قابل احترام شہری شمار ہوتے ہیں۔ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ نے بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ پڑھ رکھا ہے۔ بانو قدسیہ ہمارے ملک کی قابل احترام ادیب ہیں۔ ان کی سوچ سے اختلاف ممکن ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ 1949 میں گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو کی تدریس شروع ہوئی تو مس قدسیہ چٹھہ طالب علموں کے اولین گروہ میں شامل تھیں۔ 70 برس ہونے کو آئے۔ اس ملک کی بری بھلی جو تصویر بنی ہے، بانو قدسیہ اس کا حصہ رہی ہیں۔ اردو کی افسانوی نثر میں عصمت چغتائی، قرةالعین حیدر اور بانو قدسیہ تین بنیادی حوالے ہیں اور اگر آپ کچھ جگہ دیں تو جمیلہ ہاشمی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گا۔ بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ۔ اردو کے اہم ناولوں میں سے ایک ہے۔ اچھی تخلیق غیر متنازع نہیں ہوتی۔ بانو قدسیہ کا ناول ایک متنازع موضوع پر بے حد متنازع رائے ہے۔ بانو قدسیہ کا مقدمہ یہ ہے کہ تسلیم شدہ راستے سے انحراف کے نتیجے میں اختلال پیدا ہوتا ہے۔ انحراف پر انہوں نے حرام کا لیبل لگایا۔ بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ جسے پرکھوں نے مان لیا اور آئندہ نسلوں کو تعلیم کیا، وہی راستہ قابل تسلیم ہے۔ معروف ہی مباح ہے۔ دیئے گئے راستے سے انحراف حرام ہے۔ حرام کا راستہ اختیار کرنے سے پاکیزگی مجروح ہوتی ہے۔ زرخیز زمین بنجر ہوتی ہے۔ اور نقش اول کی پاکیزگی پر مردار کی تہمت اترتی ہے۔ بانو قدسیہ سے اختلاف کرنا نہایت ضروری ہے۔ جہاں تک معصیت ہے، ارتقا کا در کھلا ہے۔

30 اپریل کی دوپہر لاہور کے گورنر ہاو¿س میں پاکستان کے وزیراعظم نے ان لوگوں کے ساتھ ایک نشست رکھی جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ رائے عامہ کو بنانے اور بگاڑنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کی جیب میں قومی اسمبلی کی 200 نشستیں ہیں۔ 2013 میں انہیں سوا کروڑ ووٹ ملے اور آئین کے مطابق انہیں آئندہ 25 ماہ تک حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ میز کے دو رویہ جو افراد نشست رکھتے تھے وہ بلدیاتی انتخاب نہیں جیت سکتے۔ ان کے پاس قلم ہوتا ہے اور قلم کا مقام اس امر سے متعین ہوتا ہے کہ قلم پر قط لکھنے والا خود لگاتا ہے یا یہ اس نے یہ اختیار کسی اور کو تفویض کر رکھا ہے۔ جمہوریت کا یہی حسن ہے۔ اس میں اختیار اور احتساب کے درمیان ایک توازن پایا جاتا ہے۔ جمہوریت جوابدہ حکومت کو کہتے ہیں۔ جوابدہی کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں چیف ایگزیکٹو کاغذ پر محض ایوان کی اکثریت کا رہنما ہے۔ چنانچہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں جوابدہ ہے۔ وزیراعظم ارکان پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سوال کرنے والا رکن پارلیمنٹ حزب اختلاف سے ہے یا اس کا تعلق حزب اقتدار سے ہے۔ ایک موہوم سی اصطلاح ہے، پارلیمنٹ کا اعتماد۔ وزیراعظم کی حکومت پارلیمنٹ کے اعتماد پر قائم ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت عدم اعتماد کر دے تو وزیراعظم کا اقتدار ختم ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم قانون سے ماورا نہیں ہے اور آئین کی پابندی اس کی ذمہ داری ہے۔ ملک کی ہر عدالت کسی بھی قانون کی روشنی میں وزیراعظم کا احتساب کر سکتی ہے۔ مملکت کی سربراہی کے نتیجے میں جو استثنیٰ صدر کو حاصل ہے وہ وزیراعظم کا حصہ نہیں۔ اعلیٰ عدالتیں نظر رکھتی ہیں کہ وزیراعظم آئین سے انحراف نہ کرے۔ ہم نے تو ایک منتخب وزیراعظم کو توہین عدالت کے الزام میں گھر بھیج رکھا ہے۔ یوسف رضا گیلانی خوش نصیب تھے کہ انہیں عدالت نے گھر بھیجا۔ ہماری معروف روایت تو یہ ہے کہ وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جائے تو عدالت اس جرم کی توثیق کرتی رہی ہے۔ وزیراعظم عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ عوام اپنا احتساب ووٹ دے کر کرتے ہیں۔ صحافت بھی منتخب حکومت کے احتساب کی ایک صورت ہے۔ صحافیوں کو کسی نے منتخب نہیں کیا۔ ان کا منصب صرف ایک نکتے کا محتاج ہے۔ صحافی کا نکتہ استحقاق رائے عامہ کے اعتماد مین پنہاں ہے۔ پڑھنے والا، سننے والا اور دیکھنے والا جس صحافی پر صاد کر دے، وہ ملک کے ضمیر میں اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک ان کہا منصب ہے اور جملہ فریق اس کی نزاکت سمجھتے ہیں۔ رائے عامہ کو تراش خراش کر کے ترجیحی راستے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لئے کچھ کردار تخلیق کئے جاتے ہیں، یہ کردار رائے عامہ کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جارج آرویل نے کہا تھا کہ سلطنت کے بننے اور بگڑنے میں ایک استمراری ترتیب پائی جاتی ہے۔ صحافی، سیاستدان اور فنکار ہر لحظہ پڑھنے اور دیکھنے والوں کے احتساب کی کسوٹی پر ہوتے ہیں۔ قبول عام اور استرداد کی درمیانی لکیر بہت باریک ہوتی ہے۔ جمہوریت میں ذمہ داری کے بہت سے زاویے پائے جاتے ہیں جن میں باہم اختیار اور احتساب کا توازن قائم کیا جاتا ہے۔

گورنر ہاو¿س کے ایک کمرے میں وزیراعظم اور حکومت کے درجن بھر عہدے دار موجود تھے۔ کچھ افراد منتخب تھے اور کچھ بلحاظ عہدہ موجود تھے۔ تیس سے کچھ زیادہ صحافیوں سے کلام تھا۔ غلام عباس کا افسانہ \”کتبہ\” اگر آپ کو یاد ہو تو دن کے تیسرے پہر سیکرٹریٹ سے کام کر کے گھروں کو رخصت ہوتے کلرکوں کا منظر غلام عباس نے لکھ رکھا ہے۔ کچھ ایسے تھے کہ کند استرے سے برس ہا برس داڑھی مونڈتے رہنے سے ان کے کلّوں پر بالوں کی دہری جڑیں نکل آئی تھیں۔ کچھ کا سبزہ رخسار ابھی امنگ کے درجے میں تھا۔ کچھ سن باس کو پہنچ رہے تھے اور کچھ ابھی استجاب کی دہلیز پر تھے۔ آپ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ وزیراعظم اور رائے عامہ کے ان معماروں میں اپریل کی آخری سہ پہر کیا مکالمہ رہا۔

وزیراعظم کی گفتگو اور ان کے رفقائے کار کے بیان میں بنیادی نکتہ ملک کی معاشی ترقی کا تھا۔ ایک سمجھدار آدمی نے بجلی بحران پر قابو پانے کے مراحل بیان کئے۔ دو برس پہلے کی صورت حال کے اعداد و شمار دیئے۔ آج کہاں کھڑے ہیں اور آئندہ دو برس میں کیا تصویر بنے گی۔ ایک اور صاحب علم نے سلیقے سے یہ بتایا کہ ملک بھر میں سڑک کہاں تعمیر ہورہی ہے۔ سڑک کہاں سے نکلے گی، اور کس شہر سے گزرتی ہوئی کہاں تک پہنچے گی۔ پیسہ کہاں سے آیا ہے اور سڑک پر پہیہ کب دوڑے گا۔ ایک صاحب نے بجلی اور سڑک کے بیچ میں کارفرما گیس کا نقشہ بنا کر دکھایا۔ کچھ بات ریلوے کی ہوئی۔ بنیادی تصور یہ کہ حکومت شہریوں کے معیار زندگی میں بہتری کے نصب العین کو ترجیح دیتی ہے۔ تری آواز مکے اور مدینے! صاحب یہی وہ لبرل پاکستان تھا کہ جس کے سب افسانے ہیں۔ مطالبہ یہی تھا کہ معیشت پر توجہ دی جائے۔ چشم براہ تھی، دیکھئے ہم کو چاہنے والے کب چاہیں۔ سیاست کے اسی نمونے کا مطالبہ تھا جس کی نیو معیشت پر اٹھائی جائے۔ اگر حکومت معیشت کے اہداف حاصل کر پائے تو بہت اچھا اور اگر ناکام رہی تو عوام کے احتساب کا وقت مقرر ہے۔ اب خط تنصیف کے دوسری طرف اہل الرائے کا معاملہ دیکھئے۔ وزیراعظم نے انکسار کے ساتھ درخواست کی کہ ساڑھے تین منٹ کی ایک تصویری پیش کش دیکھ لیجئے، آپ کو کچھ بنیادی باتیں سمجھنے میں سہولت رہے گی۔ اس پر ایک صاحب علم بے نیازی سے فرماتے ہیں کہ چھوڑیں جناب یہ نقشہ وقشہ۔ آپ سے منہ زبانی بات کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جناب وزیراعظم آئیے، نعرے بازی کرتے ہیں۔ مکالمے میں موضوع اور وقت پر توجہ رکھنا مخاطب کے احترام اور فریقین کی مجلسی تہذیب کا امتحان ہوتا ہے۔ ایک بزرگ نے اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا سوال اٹھایا، اس پر بات چل نکلی۔ اعداد و شمار پیش کئے گئے لیکن صاحب سوال رخ بدل کر خطاب جاری رکھتے ہیں۔ ایران توران سے ہوتے ہوئے تحریک خلافت اور ون یونٹ تک سبھی زیر آسمان معاملات پر کماحقہ اظہار خیال فرمایا۔ ایک محترم بھائی کو بے چینی تھی کہ رشوت دہی کا علی الاعلان اقرار کرنے والے ایک پاکستانی شہری نے جو مسجد بنائی ہے اگر حکومت نے اس کا رتی تولہ ماشہ جواب نہ دیا تو حکومت سے برکت اٹھ جائے گی۔ مسئلہ اس روایت کی باقیات کا ہے جس میں اہل صحافت آمروں کو مفید مطلب مشورے ارزاں کیا کرتے تھے۔ معیشت کی ثقافت سیکھنا کچھ ایسا سہل نہیں، ہم نے لب دریا اتنا وقت گزارا ہے کہ ہمیں حسن دریا سے خوف آتا ہے۔

روس کے زار الیگزنڈر دوم نے 1861 میں زرعی غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ جدیدیت کی طرف اس اہم قدم کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے میں نکولائی گوگول کے ناول \”مردہ روحیں\” کا وہی مقام تھا جو امریکا میں ہیریٹ سٹو کے ناول انکل ٹامز کیبن کا تھا۔ گوگول کے ناول کا مرکزی خیال بے حد نادر تھا۔ غلامی مردود قرار پا گئی تھی لیکن انسانوں پر حقوق ملکیت کے قانون سے استنباط کئے گئے مفادات باقی تھے۔ ایک شخص ان غلاموں کو خریدنے نکلتا ہے جو مرچکے تھے لیکن پٹواری کے کاغذوں میں زندہ تھے۔ نکولائی گوگول کا ناول \”مردہ روحیں\” نامکمل رہا کیونکہ ناانصافی صورت بدل بدل تاریخ مین نمودار ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ سوال ابھی زندہ ہے کہ بانو قدسیہ کا \”راجہ گدھ\” کون ہے۔ بائیس کروڑ کی اس قوم میں متعلق سوال کون اٹھا رہا ہے۔ اور متروک لغت کی جواب دہی کون کرے گا۔ مردہ روحوں کے ساتھ مراسم کی تمثیل کب انجام کو پہنچے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments