میراثی ہونا… آپ سے نہیں ہو گا



میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے، دیہات سے منسوب کچے راستے ، پیڑ ، حویلیاں ، پیلیاں ، باغ ، کھیت ، کھیل ، چوپال ، غرض ہر شے نے رنگ روپ بدل لیا ہے۔ کچے گھر کنوئیں پگڈندیاں اب پکے مکان، ٹیوب ویل اور پکی سڑکوں میں بدل گئے ہیں مگر نہیں بدلا تو میرے گاؤں کا میراثی اور اس کا ضمیر۔

ملنگی ہمارے گاؤں کے میراثی کا نام ہے اب بھی گھوڑی پر سوار رہتا ہے۔ جب سے میں نے اسے دیکھتی ہوں ایک صرف وہی ہے جو حویلیوں کے دروازوں پر سواری پر سوار ہو کر آتا ہے کیوں نہ آئے جدِ امجد سے اُس کے باپ دادا یوں ہی شان سے آتے تھے وہ بھی آتا ہے ہمارے حسب نسب کا اصل مورخ ہے وہ۔ اسی کے پاس تو سب ہمارا اصل ورثہ، ہے نسب کا ورثہ۔

پہلے میں میراثی لفظ کا مطلب اور کام آپ کو بتا دوں تو بہتر ہوگا۔ میراثی لفظ کے معنی ہیں میراث کا علم رکھنے والا، پشتوں سے اُن کا کام ہے اپنے سینے میں محفوظ رکھنا کہ کون کس کا ولد یا والد ہے۔ ہر دور کے میراثی کے پاس کم از کم سات نسلوں تک کاحوالہ سینے میں محفوظ ہوتا ہے۔ میرے بیٹے کو بھی اتنا اپنے خاندان کا نہیں معلوم جتنا ملنگی کو معلوم ہے ۔کون یہاں سب سے پہلے آن آباد ہوا، اُس کے کتنے بیٹے تھے ،کتنے جئے کب مرے ۔ وہ گھوڑی پر آتا ہے اور میرے پوتوں سے پیڑ ھی پڑھنا شروع کرتا ہے۔ ملکانیاں، مزارنیں اور دیگر بستی بھر کی عورتیں میرے پاس جمع ہو کر میرے بچوں پر سے صدقے واری جاتی ہیں اور چمٹے کی تال پر میرے آباو اجداد تک کا نام لیتا ہے۔ سسرالی ہی سہی، اب وہ میرے بھی اجداد ہیں۔ جس جس کا نام آتا ہے اسی اسی مرد کیلئے جیوے تے لکھ لکھ خیر تھیوے کا راگ بھی الاپتا ہے۔ جب مرحومین کا نام آئے تو اس کا چمٹا رک جاتا ہے اور وہ بس نام لے کر پیڑھی بھی خیر کہتا ہے۔ گاؤں میں ایک بڑی نعمت ہوتی ہے برامدہ اور برامدے میں بیٹھ کر اپنے آباؤ اجداد کا نام سن کر مودب ہو کر خاموشی سے نام سنتے ہیں اور بچوں کو نام اور رشتے یاد کرواتے ہیں جس کا اصل سہرا ملنگی کے سر جاتا ہے کہ مہینے میں ایک بار آ کر وہ ہمیں ہم سے ملا جاتا ہے۔ یاد کروا جاتا ہے کہ ہم کون ہیں۔ کس خاندان سے ہیں اور ہمیں اس وقت اپنے بزرگوں کی ارواح سے شرم آ رہی ہوتی ہے کہ کیا کیا عظیم ہستیاں گزری ہیں اور ہم نے اُن کے ناموں کو کیسے خراب کیا ہے۔

یہ احساس بھی ہمیں تو شاید نہ ہو۔ مگر وہ میراثنیں ہمارے پاس بیٹھی ہوتی ہے، وہ ایک ایک کے اعلیٰ مدارج اور اخلاقی بلندی کا شجرہ اپنے پاس رکھتی ہیں ۔ کبھی آنسوؤں میں رندھی آواز کے ساتھ کبھی لہک لہک کر ہمیں ماضی بعید میں لے جاتی ہے گویا یہ میراثیوں کا ٹبر ایک ٹائم مشین ہے۔

جس میں نئی نسل کبھی کبھی دلچسپی لیتی ہے تو کبھی بو ر ہو کر اپنے کاموں میں لگ جاتی ہے۔ مگر مجھ سمیت بڑی بوڑھیاں گزرے وقت کی خیر اور امن، محبت اور اخلاقیات پر کیا وقت تھا کہہ کر پھر سے ایک دوسرے پیار اورمحبت کا وعدہ پکا کرتی ہیں اور ملنگی کو ایک بوری گندم اور چند روپے دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ڈیرے پراگر مردوں میں بحث چھڑ جائے تو آواز پڑتی ہے ملنگی۔۔۔ اور پھر کمے سے کہا جاتا ہے کہ آ کر بتا کہ بھلا ہمارے اُس چچا کا منجھلا بیٹا کتنے ماہ کا ہو کر مرا تھا۔ اور اُسے لحد میں کس نے اتارا تھا۔ کما یا ملنگی جو بھی بتائیں اُس پر سب کا اتفاق ہوتا ہے۔ کس کی شادی پر کتنے من لڈو بٹے تھے اور کون کون غیر برادری سے شامل ہوا تھا یہ سب ہمارے مورخ میراثی کے پاس ہوتا ہے۔ کوئی لکھت پڑھت نہیں پر سینوں میں محفوظ یہ خاندانی باتیں ان تاریخ دانوں کی کبھی کسی نے چیلنج نہیں کیں۔ میراثی کو حقہ اور چارپائی کھیس بھی ڈیرے پر ڈیرے دار ڈال کر دیتا ہے۔

کس نے کس کے لئے کیا قربانی دی ۔ کس لئے دی یہ سب میراثی محفوظ رکھتا ہے اپنے پاس اور پھر اگر کوئی ناچاقی یا حادثہ ہو تو یہی میراثی آکر آباؤ اجداد کے روابط بتا کر جھنجھوڑ جاتا ہے۔

ان تاریخ دانوں کے گھر کی عورتیں سب جانتی ہیں کہ کب کس بی بی نے کس بی بی کے ساتھ دوپٹہ بدلا تھا یا کسی کے بچے کو دودھ پلایا تھا، کب کسی کی بچی بڑی ہو گئی ہے باقی خاندان کی عورتوں کو آگاہی دینا کہ اب اپنے بیٹوں کو محتاط رہنے کا کہہ دو۔ کب کس کو حمل ٹھہرا اور کب کوئی بی بی کسی دوسری بی بی سے رنجش دل میں رکھے ہے اس کا پتہ بڑی بزرگ خواتین کو دینا اور سب کا دل صاف رکھنا اُسی مراثن کا ذمہ ہے۔ دلہن کے سہاگ کے دوپٹے کو پہلا ہاتھ مراثن لگاتی ہے، کرن لپا ٹانکتی ہے، خوشی کے گیت گاتی اور ملکانیوں کے بیچوں بیچ بیٹھ کر سب کو رسم ورواج بتاتی ہے کہ ہم ماڈرن ہو کر سب بھول چکے ہیں۔ مہندی لگانے سے ابٹن تک سب اسی کے مبارک ہاتھوں سے ہوتا ہے۔ میرے جیسی ماڈرن عورت کو پراندہ ڈالنا اور چھیڑ چھیڑ کر بالآخر گھونگھٹ نکال کر گوٹھ کی چاچی پھوپھی تائی کا رشتہ باور کروا کر جھومر میں شامل کرنا کسی منڈا پٹواری دا ٹائپ گیت پر بس اسی کا کام ہے۔ ٹوٹے رشتوں کو پل میں اپنی میٹھی زبان اور رابطے واسطے رشتے یاد دلا کر جوڑنا اسی نیک بخت کا کام ہے۔ اور یہ یہ آج سے نہیں ہو رہا، نسلوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ میراثی طبقہ نا صرف ہمارا مورخ ہے بلکہ محبتوں کا امین بھی ہے۔ ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر ہم سے زیادہ کڑی نگرانی کرنے والے اس طبقے کو ہماری عزتوں کا خیال ہے۔ کوئی غیر اخلاقی مسئلہ ہو تو یہ صرف میراثی طبقے کی عظمت ہے کہ وہ معاملہ بڑوں تک ملائمیت سے پہنچاکر اپنا فرض نبھاتے ہیں گویا جو راز ان کے سینوں میں ہیں وہ اتنے پراعتماد ہیں اپنی نسلوں تک انہیں سونپ کر جاتے ہیں ۔ جو کبھی کبھار اگر کسی اور کا بچہ کسی دوسرے گھر پیدا ہو جائے تو نسل کی حفاظت کیلئے کوئی یہ راز نہ بھی کھولے تو بزرگوں کے قدموں میں دو پٹہ ڈال کر راز بتا کر نسل کو بدنسل ہونے سے بچا لیتی ہیں۔ اس کی پاداش میں وہ بیچاری ٹھڈے بھی کھا لیتی ہے مگر بات بگڑنے نہیں دیتی۔
ہم نے پردہ ترک کر دیاہے مگر مجال ہے جو یہ ہماری نسل کے اصل شجرے کا محافظ پردہ چھوڑے۔ اگر کبھی سامنا ہو جائے تو سائیکل سے اُتر کر آئے گا اپنے چہرے پر آنکھوں سمیت پلہ ڈال کر رخ دوسری جانب موڑ لے گا مگراس لفظ میراثی کے معنی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجودمعاشرہ نہ جان پایا۔ اُن کے اوصاف کو تو کیا ہی سمجھے گا۔

٭٭٭  ٭٭٭

انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہ ملنگی مر گیا ہے۔ برامدے والی حویلیاں اب ماڈرن طرز کی کوٹھیاں بن گئی ہیں۔ یہ تحریر بہت پہلے لکھی گئی تھی۔ برسوں سے کہیں کاغذوں میں دبی ہوئی تھی۔ جب ایک صحافی برادر کی ایک پوسٹ میں میراثی کا ذکر پڑھا تو یہ تحریرمیں نے پرانے کاغذوں میں سے نکالی کہ یہ ہوتا ہے میراثی۔ اس کے کردار کو سمجھیں اور پھر اپنی تحریر پر غور کریں ۔ کیا وہ میراثی کے درجے کو سمجھ پائے ہیں۔ اگر نہیں تو انہیں کپڑے کی دکان کھولنی چاہیے اور اپنی صحافت کو کفن بھی اسی دکان سے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).