پاکستان کے عام انتخابات اور منٹو کا نیا قانون


پچیس جولائی کو پاکستان میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ دولت اور سرمائے کے زور پر لڑے جانے والے اس دنگل میں اترے کھلاڑیوں کے قارون کی یاد دلانے والے اثاثہ جات کی ہلکی سی جھلک، ٹکٹوں کے حصول میں ہمیشہ کی طرح جاگیر داروں اور سرمایاداروں کے سبقت لے جانے اور اس دنگل سے ہمیشہ کی طرح خوش کن امیدیں وابسطہ کیے کسی پرجوش محنت کش مڈل کلاس آدمی کو دیکھیں تو فوراً ذہن میں سوا سو سال پہلے لکھے گئی منٹو کے افسانے نیا قانون کے کوچوان کا کردار آنکھوں کے سامنے آتا ہے جو ریڈیو اور پرنٹ میڈیا سے انڈیا ایکٹ یا قانون میں تبدیلی کی خبر سن کر جوش اور خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ وہ یہ خواب دیکھنے لگتا ہے کہ شاید اس تبدیلی سے اس کی زندگی اور حالات یکسر بدل کر رہ جائیں گے اور اسی خوش فہمی میں وہ گورے کر سپاہیوں سے جھگڑ حوالات میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنا حق مانگنے کی پاداش میں وہ پہلے بھی کئی بارجا چکا ہوتا ہے۔

قریباً سوا سو سال پہلے کے ایک عام ہندوستانی کی سیاسی آگاہی اور عوام کی موجودہ سیاسی بصیرت کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرہ چہروں کے فرق کے ساتھ سو سال پہلے کی طرح آج بھی غربت، افلاس، بیماری اور فرقہ واریت کے اسی دوراہے پرکھڑا ہے؟

سماجی سائنس کے قوانین کے مطابق کسی بھی سماج میں تبدیلی اور ترقی اس سماج میں موجود متضاد قوتوں کی باہمی کشمکش اور ان کے مفادات کے ٹکراؤ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یعنی ایک جاگیر دار اور وڈیرے کا مفاد اس میں ہے کہ کسان اور ہاری اپنے حقوق کے شعور سے عاری اور غربت اور تنگدستی کا مستقل شکاررہیں تاکہ وہ اپنی بقا کی خاطر اس کے کھیتوں کو سونا بنا کر اس کے لیے پر تعیش زندگی کے نئے دروازے کھولتے رہیں۔ ٹھیک اسی طرح ایک سرمایہ دار کا مفاد اس میں ہے کہ محنت کش، مزدور بے شعور، غیر منظم اور تنگدست رہیں تاکہ وہ کم سے کم اجرت میں ذیادہ سے ذیادہ کام کر کے اس کی دولت و کاروبار میں اضافے کا ذریعہ بنتے رہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک سرمایہ دار اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا بھی دلدادہ ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح ہاریوں، کسانوں، مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کا مفاد اس میں ہے کہ وہ شعور کے ہتھیار سے لیس ہوں تاکہ وہ اپنے غصب شدہ حقوق اور حقوق کو غصب کرنے والے استحصالی ٹولے کو پہچان سکیں۔ اور اسی شعور کی بنیاد پر وہ اپنے غصب شدہ حقوق جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایاداروں کے طبقے( جو کہ 5فیصد سے ذیادہ نہیں) سے چھیننے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ یہی جدوجہد اس تعفن زدہ سماج میں تبدیلی اور اسے ایک نئے روشن دور میں داخل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے جماعتی اور عسکری تفریق سے قطع نظر پاکستان کا کل سیاسی ڈھانچہ دو طبقات پر مشتمل ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اکثریتی جاگیرداروں، وڈیروں اور تعداد میں نسبتاً کم مگر مقتدر سرمایہ داروں پر مشتمل ہے جو انتخابات سمیت تمام تر سیاسی پارٹیوں اور سیاسی سرگرمیوں کی قیادت کر تے ہیں۔ اور دوسرا طبقہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عام سیاسی کارکنوں کا ہے جنہیں انتخابی میدان میں قیادت کرنےیا پارٹی ٹکٹ کے معاملے میں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور یہ ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو اپنا رہبر بنا کر سیاسی اور جمہوری طریقوں سے اپنے مسائل کے حل کی امید لیے ہر مشکل صورتحال سے نبردآزما ہو جاتے ہیں۔

یوں پاکستان کا سیاسی اور جمہوری نظام سرمایاداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کا ایک کھیل بن چکا ہے جس میں 95فیصد لوگوں پر مشتمل طبقہ محض تماشائی کا کردار ادا کرتا ہے اور ہر عام انتخابات کا نتیجہ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے کسی خاص گروہ کی بادشاہت اور لوٹ مار اور دولت میں اضافے پر ختم ہوتا ہے۔ گو کہ جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ نے کسی حد تک پارٹی سٹرکچر کو کسی حد تک اس قابل بنایا کے عام آدمی قیادت کی سطح تک پہنچ پائے لیکن ان کی بھاگ ڈور ان پاکستان کی ان با اثرقوتوں کے ہاتھ میں رہی جو جنہوں نے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر کے اندورن ملک اور بیرون ملک فرقہ واریت اور دہشت کے ماحول کا رائج قائم کیا اور بعد ازاں خود انہیں یا تو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیا بالکل غیر مؤثر بنادیا۔

اس صورتحال میں پاکستانی سماج میں کسی انقلابی تبدیلی کے لیے ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جوپسے ہوئے طبقات کو ان کے حقوق کا شعور دینے اور استحصالی قوتوں کے بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ پسے ہوئے مزدور، ہاری اور کسان طبقات کو منظم کرکے حقیقی جمہوری بنیادوں پر انہیں منظم جماعت کی شکل دے کر تبدیلی کی جدوجہد کرے۔ گو کہ عوامی ورکرز پارٹی اور پاکستان مزدور کسان پارٹی جیسی جماعتیں اس نہج پر لوگوں کو منظم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور انتخابی عمل میں دولت اور سرمائے کو بنیاد بنانے اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا سہارا لینے کے بجائے پسے ہوئے طبقات کی حمایت سے اترنے کی قابل ِ تعریف جدوجہد کر رہی ہیں۔

غربت، پسماندگی، فرقہ واریت اور جبر کی اس سیاہ رات میں یہ یقیناً امید کی کرن ضرور ہیں لیکن یہ ابھی اس منزل سے کافی دور ہیں جہاں سے سماج اور سماجی رویوں کی تبدیلی میں متاثر کن اور فیصلہ کن کردار ادا کیا جا سکے اس مقام پر پہنچنے کے لیے انہیں صبرآزما اور انتھک جدوجہد کرنی ہو گی ورنہ پاکستانی سماج منٹو کے نئے قانون کا عملی مظہر بن کر اپنے ہی قاتلوں سے انصاف کا متقاضی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).