عرفان خان نے خط نہیں اپنا درد لکھا ہے


ابھی تک میں تیزرفتارٹرین میں سفر کررہا تھا۔ میرے ساتھ کچھ خواب، خواہشات، خوشیاں اور منزلیں تھیں۔ لیکن پھر ٹکٹ چیکر نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا کہ آپ کا اسٹیشن آگیا ہے نیچے اتر جائیں، جس پر میں نے حیران ہو کر کہا کہ ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیاتو وہ بولا آپ کو اگلے اسٹیشن پر اترنا ہوگا۔

یہ بھارتی اداکار عرفان خان کے جملے ہیں جو انہوں نے پچھلے دنوں اپنی بیماری کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے ادا کیے۔ جب مداحوں کو لکھا خط میری نظر سے گزرا تو میرے ذہن میں بڑی بڑی سرخ آنکھوں اور معمولی شکل و صورت کے نوجوان کا چہرہ ذہن میں آیا۔ جب اس نے بالی وُڈ کی ٹرین پکڑی تو وہ بزنس کلاس تو کیا لوئر اے سی کا مسافر بھی نہ تھا۔

اس نوجوان نے بھارتی فلم نگری کو بتایا کہ ایک ایسا خان بھی ہے جس کے پاس چارم نہیں لیکن وہ اداکاری جانتا ہے۔ جب عرفان خان نے کریزی فور اور سنڈے جیسی مزاحیہ فلموں میں جوہر دکھائے تو ناظرین کو خوب ہنسایا۔ جب بات آئی تلوار۔ غنڈے اور جذبہ جیسی فلموں کی تو عرفان کے برجستہ جملوں اور کمال کی اداکاری نے دل جیت لیے۔

لیکن افسوس اس بات کا کہ ایسی انوکھی شخصیت کا مالک ایک انوکھی بیماری (نیورو اینڈرو کرائن کینسر) کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتال کے بستر پر پڑا ہے۔ مداحوں کے نام خط میں عرفان نے یہ لکھا کہ پہلی بار بیماری کانام سنا تھا۔ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ اس بیماری پرزیادہ تحقیق نہیں ہوئی۔ احساس ہوا کہ میں ایسے سمندر میں بہہ رہا ہوں جس پر میراکوئی قابو نہیں۔ سوچ کر صدمہ ہوتاہے کہ سب کچھ اچانک کیسے ہوگیا۔

لکھا دنیا میں بے یقینی ہی یقینی ہے۔ درد کی گرفت میں ہوں۔ بے انتہا درد ہو رہا ہے۔ یہ معلوم تھاکہ درد ہوگا لیکن ایسا درد! اب درد کی شدت محسوس ہو رہی ہے۔ ڈھارس نہ کوئی دلاسہ ہے۔ ساری کائنات اس درد میں سمٹ آئی ہے۔ اسپتال کی بالکنی سے باہر کا منظر نظر آتا ہے۔ سامنے ہی لارڈز کا میدان ہےجہاں ووین رچرڈز کا مسکراتا پوسٹر لگا ہے۔ پہلی نظر اس پر پڑی تو کوئی احساس نہیں ہوا۔ ایسا لگا جیسے دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں۔

عرفان نے لکھا کہ اس سفر میں ان کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کی دعائیں ہیں جن میں ان کے جاننے والے اور نہ جاننے والے تمام شامل ہیں۔ عرفان خان کا خط پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے۔ یہ صرف خط نہیں درد میں ڈوبی داستان ہے۔ اور مجھے یقین ہے جس نے بھی یہ خط پڑھا اسے یہی محسوس ہوا ہوگا کہ عرفان نے خط نہیں اپنا درد لکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).