شناخت ہی نہیں تو ووٹ کیسا؟


‘اس دفعہ میں تبدیلی لاؤں گا۔ انقلاب کوئی لائے نہ لائے میں اپنا ووٹ دے کر انقلاب ضرور لاؤں گا۔ میرا ووٹ تم دیکھو گے کتنا اہم ہے۔ اب چاہے بلا ہو کہ شیر، تیر ہو کہ ترازوں، کتاب ہو کہ لالٹین، قلم دوات ہو کہ پتنگ سب میرے ووٹ کے محتاج ہیں اور وہ سونامی خان وہ بھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ کرکٹ کا بزرگ اور سیاست کا نابالغ کچھ تو کرے گا۔ لیکن دیکھو! آج میں کتنا اہم ہوں کہ میں جس کو چاہوں اقتدار میں لاؤں اور جسے چاہوں حکومت کے ایوانوں سے دور کر دوں۔ ‘‘وہ تو ٹھیک ہے، مگر تمہارا شناختی کارڈ بن گیا؟ اب تو تم اکیس سال کے ہو چکے ہو۔ ووٹ ڈالنے کے لیے تو شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘

‘نہیں، وہ تو نہیں بنا اور نہ ہی آگے کوئی امید نظر آتی ہے، کیونکہ اپنی شناخت کے لیے مجھے باپ کے نام کی ضرورت ہے اور میں تو یہ ہی نہیں جانتا کہ میرا باپ کون ہے۔ ‘یہ کراچی کے ایک رفاہی ادارے میں پلنے والا نوجوان ہے، جو انقلاب کی بڑی بڑی باتیں تو کر سکتا ہے مگر ووٹ نہیں ڈال سکتا، کیونکہ ووٹ کے لیے لازمی ہے شناختی کارڈ اور کارڈ کے حصول کے لیے ضروری ہے بنیادی دستاویز یعنی والدین کا شناختی کارڈ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسے لاکھوں افراد اس مملکت خداداد میں موجود ہیں جو شناختی کارڈ حاصل کرنے کا بنیادی حق تو رکھتے ہیں، لیکن ملکی قوانین کی وجہ سے وہ اس حق سے محروم ہیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں؟ جی ہاں یہ رفاہی اداروں میں پلنے والے لاکھوں لاوارث بچے اور نوجوان ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا وجود کسی کی لغزش کا نتیجہ ہے اور ان کا پیدا ہونا ہی ان کے لیے جرم بن گیا۔ ماں کی آغوش کی جگہ کسی رفاہی ادارے یا فلاحی تنظیم کا پالنا ان کا نصیب بنا۔ یہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انھیں یہاں چھوڑ کر جانے والے ان کے ماں باپ تھے یا پھر انھوں نے یہ کام بھی کسی اور کو پیسے دے کر کروایا تھا۔ یہ تو وہ ہیں جن کو بطور رحم جینے کا حق دے دیا گیا، ورنہ ان جیسے کتنے ہی بچے کچرے کے ڈھیر پر پڑے پڑے ہی مر گئے۔ انھیں زندگی بھر شناخت کا مسئلہ رہتا ہے۔ پاکستان بھر میں روزانہ صرف ایدھی ہوم کے باہر رکھے گئے جھولوں میں سے سیکڑوں بچے ملتے ہیں اور کچھ کچرے کے ڈھیر میں جانوروں کی خوراک بننے سے بچ جائیں تو اپنی پہچان کی جنگ میں پل پل اس معاشرے کی ہتک اور نفرت آمیز نگاہوں کا نوالہ بنتے رہتے ہیں۔

بے شناخت بچے پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں رہتے ہیں۔ کہیں ایدھی ہوم ان کا گھر ہے اور کہیں یتیم خانہ۔ ’پالنا‘ اور ’غنچہ اطفال‘ بھی ایسی ہی جگہوں کے نام ہیں، جہاں کے بہت سے مکینوں کو اپنے ماں باپ کا پتہ نہیں۔

صرف ایدھی کے ملک بھر میں تین سو پینسٹھ مراکز ہیں، جہاں ہر سال سوا دو سو کے قریب بچوں کو جھولوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انھیں اپنانے کے لیے ہزاروں بے اولاد جوڑوں کی درخواستیں ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس پڑی ہوتی ہیں۔ ایدھی ہومز میں اب تک بیس ہزار بچوں کو بے اولاد جوڑوں نے گود لیا ہے۔ یہ بچے آج ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں، لیکن شناختی کارڈ ان کا بھی نہیں بنا۔
حکم رانوں اور سیاست دانوں کے لیے سماج کے بہت سے سلگتے مسائل کی طرح یہ بھی یقیناً کوئی مسئلہ نہیں، کیوں کہ ووٹ تو انھیں مل ہی جاتے ہیں اور اقتدار میں آ کر تو انھیں کروڑوں پاکستانیوں کو درپیش بنیادی مسائل یاد نہیں رہتے تو وہ ان چند لاکھ افراد کے کرب پر کیا توجہ دیں گے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایسے بے شناخت بچوں کے حوالے سے کچھ پیشرفت کی اور اس سلسلے میں دو ہزار نو میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خصوصی تعلیم و سماجی بہبود کا اک اجلاس ہوا تھا، جس میں انکشاف کیا گیا کہ تمام لاوارث بچوں کی ولدیت کے خانے میں صدر مملکت یا سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کا نام لکھنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے، تا کہ ان کی قانونی دستاویزات بنائی جا سکیں۔ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ساجد میر نے اس پر وزارت سماجی بہبود اور وزارت داخلہ کی قائمہ کمیٹی کا مشترکہ اجلاس بلانے کو کہا تھا، جس پر صرف کاغذی کارروائی ہی ہوئی۔

مجوزہ اجلاس کے سلسلے میں غور بھی ہوا، لیکن ہوا کچھ نہیں۔ قانونی دستاویزات بہرحال نادرا کو تیار کرنی ہیں اور نادرا والے تو پھر نادرا والے ہیں۔ ان کے پاس سو جواز ہیں۔ مثلاً والدین کے نام کا پتہ نہیں تو بے فارم کیسے بنے گا، ب فارم نہیں ہو گا تو شناختی کارڈ کیسے بنے گا۔ سب سے بڑی مجبوری ’بے چارے‘ نادرا والوں کو یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی حکومت نے انھیں یہ ہدایت ہی نہیں دی کہ ایسے افراد کے شناختی کارڈ بنائے جائیں۔ ’انقلاب‘ کا نعرہ لگانے والے ہوں یا ’ہیوی مینڈیٹ‘ او ر ’پاکستان کھپے‘ کی صدائیں دینے والے، کسی نے بھی اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی اور اگر کہیں ایوانوں میں کوئی صدا بلند کی بھی گئی تو وہ بھی پانچ سال میں یہاں وہاں ہی بھٹکتی رہ گئی۔ ملک کوئی بھی ہو کچھ حقوق دنیا میں آنیوالے ہر انسان کو حاصل ہیں۔ شناخت کا حق بھی انھی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

اگر یہ حاصل نہ ہو تو باقی حقوق مل ہی نہیں سکتے۔ باپ کا نام نہ ہو، بے فارم نہ ہو تو اسکول میں داخلہ نہیں ملتا۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹ ان سب کے لیے بھی باپ کا نام چاہیے۔ کئی بچے ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں کسی شناخت کے بغیر ہی اپنے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو وکالت نامہ سائن کرنے کے لیے بھی ایک نام کی ضرورت ہے، جس کی کوئی ولدیت بھی ہو۔ ایسے لاوارث بچوں کی شناختی دستاویز کے لیے پاکستان میں کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔ نہ ہی نادرا کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد کے شناختی کارڈ بنائے۔ ایدھی ہوم کے مردہ خانوں میں ہر روز ایسے نومولود بچوں کو غسل دیا جاتا ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں کوڑے دانوں یا دیگر مقامات پر ملتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ بے شناخت بچے کسی غلطی کا نتیجہ ہی ہوں۔

بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جن کے اصل ماں باپ تو ہیں لیکن وہ کسی حادثہ کی وجہ سے ان سے بچھڑ کر لاوارثوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دیگر ممالک کی طرح اسلامی ممالک میں بھی اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ الجزائر، مراکش، تیونس اور لیبیا میں اس طرح کے بے شناخت بچوں کو شناخت دینے کے واضح قانون موجود ہیں جو انھیں قانونی تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ تمام بنیادی حقوق کا تحفظ بھی دیتے ہیں۔ دنیا میں آنیوالا ہر بچہ معصوم ہوتا ہے، جب کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر سرِ راہ ملنے والے بچوں کا بھی کوئی قصور نہیں ہوتا۔ لیکن لاوارث ہونے کا احساس اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب اپنے ہی ملک میں انھیں شناخت نہ دی جائے۔ ملازمت کیا، ووٹ کیا، اچھی زندگی کیا، کچھ بھی ان کو میسر نہیں، کیونکہ ان کے پاس شناخت موجود نہیں۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں جب انھیں اپنی پہچان کا سفر اتنا تکلیف دہ نظر آتا ہے، تو اکثر بے راہ روی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس روش کا ذمے دار کون ہے؟ وہ روح جو انسان کا روپ لیے معصوم آنکھوں اور خوب صورت کلکاریوں کے ساتھ زمین پر اُتری یا ملکی قوانین جو انسان کو انسان ماننے کو تیار نہیں؟

حکمرانوں اور حکومتی اداروں کی بے حسی دیکھتے ہوئے عدلیہ ہی سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلتے ان افراد کے مسئلے پر توجہ دے۔ سپریم کورٹ اس مسئلے کا از خود نوٹس لے اور جس طرح تیسری جنس کا شناختی کارڈ بنوانے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح بے شناخت افراد کے حوالے سے قانون سازی کا حکم دیا جانا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).