بیٹی ہی پیدا ہونی تھی مگر واش روم میں کیوں؟


ایک لڑکی فیس بک مسینجر پر باربار پیغامات بھیج رہی تھی۔ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ مجھے پرائی لڑکیوں سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا یا مجھے لڑکیاں نہیں پسند تو یہ سراسر منافقت ہو گی۔ میں بھی سوشل میڈیا پر سینکڑوں سفیدپوشوں کی طرح شرافت کا لبادہ اوڑھے ہمیشہ چانس کی تلاش میں رہتا ہوں۔ لیکن اس لڑکی کو صرف اس وجہ سے نظر انداز کر رہا تھا کہ کہیں سافٹ اینجل کی آڑ میں صابر چاچا نہ ہو۔ میرے جواب نہ دینے پر اس نے میری فیس بک پروفائل سے سیل نمبر لیا اور سیدھا کال کر دیا۔ پہلے پندرہ منٹ میں اس نے اپنا تعارف کم اور میری تعریفیں زیادہ کیں۔ پھر دس منٹ اس نے میری مضامین اور فیس بک پوسٹوں کی تعریفوں میں ضائع کیے۔ اس کے بعد جب اس نے بولنا شروع کیا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے سعادت حسین منٹو کی طرح معاشرے سے لنگوٹی کھنچ رہی ہو۔

وہ ایک گائناکالوجسٹ کی بہن تھی۔ اس کافیس بک اکاونٹ سافٹ اینجل کے نام سے تھا۔ وہ اٹھارہ برس کی لڑکی معاشرے میں جاری خلاف فطرت ریپ اور کم عمر لڑکیوں کی جنسی استحصال سے جتنی واقف تھی شاید اتنا واقف ضلع قصور میں جنسی زیادتیوں کی تحقیقات کرنے والا افسر بھی نہ ہو۔ سافٹ اینجل سے فون پر ایک گھنٹہ بحث کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے ایک ایسے پلیٹ فارم کی تلاش تھی جہاں وہ نام ظاہر کیے بغیر معاشرے کا بھیانک ترین رخ عوام کے سامنے پیش کر سکے۔ اس کے پاس درجنوں ایسی کہانیاں ہیں جن سے ظہور اسلام سے قبل دور جاہلیت کا معاشرہ بھی شرماجائے۔ پروفیشنل ہونے کے باوجود اس کے لہجے میں خوف اور آواز میں تھرتھراہٹ تھی اور ہر کہانی کے درمیان اور آخر میں چوہدری نثار کے پریس کانفرنس کی طرح اگر مگر، اب نہیں، پھر کھبی بتاوں گی کا گردان کر رہی تھی۔ شاید وہ مجھ سے حلف لینا چاہتی تھی کہ جو بھی ہو لیکن اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے۔ میں نے بھی اسے یقین دلانے کے لئے اتنی قسمیں اٹھائیں جتنی تاجر اپنی گائے یا بھینس بھیجتے وقت بھی نہیں اٹھاتیں۔ اس کے بعد وہ روانی سے بولنے لگی۔

میں کلینک میں اکیلی تھی۔ میری بڑی بہن دوائی خریدنے کے سلسلے میں شہر گئی تھی۔ یہ کلینک میں میرا تیسرا دن تھا۔ ابھی میں حمل کی پیچیدگیوں اور دوران زچگی پیش آنے والی دشواریوں کے بارے میں اتنا جانتی تھی جتنا سابقہ وزیر داخلہ رحمان ملک مذہب کے بارے میں اور شیخ رشید احمد ازدواجی زندگی کے بارے میں جانتا ہے۔ اچانک ایک چھتیس سالہ بہو اور اس کی بوڑھی ساس نے انتہائی ڈرامائی انداز میں انٹری ماری۔ بہو نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر درد کے مارے چلارہی تھی جبکہ بوڑھی ساس اسے مقامی زبان میں گندی گندی گالیاں دے رہی تھی۔ ابھی بچے کی پیدائش میں صرف دس منٹ تھے لیکن میری مثال گاڑی میں بیٹھے پہلے دن کے ڈرائیور جیسی تھی۔ اس لئے میں نے ساس بہو دونوں کو شہر کے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ یہ سنتے ہی بوڑھی ساس نے گالیوں والی توپ کا منہ میری طرف کردیا اور چند گالیاں میرے حصے میں آئیں۔

آپ کو کیسے پتہ کہ بچی کی پیدائش میں صرف دس منٹ تھے؟ میں نے سوال داغ دیا۔ اس نے بتایا کہ پہلی دفعہ ڈیلیوری میں عورت کا درد تقریباً دس گھنٹے پہلے شروع ہوتا ہے جبکہ دوسری، تیسری یا اس کے بعد والی ڈلیوری کا درد تقریبا چار گھنٹے پہلے شروع ہوتا ہے۔ جب میں نے انہیں ہسپتال جانے کا مشورہ دیا تو حاملہ چھتیس سالہ بہو میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر باربار واش روم جاتی اور ضرورت پوری ہوئی بغیر واپس آتی۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ بچہ پیدا ہوتے وقت ماں کو پاخانے جیسا درد محسوس ہوتا ہے لیکن یہ اصل میں بچے کی پیدائش کا درد ہوتا ہے۔ میں ابھی تک سوچ رہی ہوں کہ چونکہ نہ میں ماں بنی تھی اور نہ حمل اور بچوں کی پیدائش میں میں میرا کو ئی تجربہ تھا۔ لیکن اس چھتیس سالہ عورت کا تو یہ پانچواں بچہ تھا وہ کیوں بار بار واش روم جارہی تھی؟ کیا اسے پتہ نہیں تھا کہ یہ پیشاب یا پاخانے کا نہیں بلکہ بچے کی پیدائش کا درد ہے؟

چھ منٹ میں وہ میری کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر تین دفعہ واش روم گئی تھی۔ چوتھی بار میں نے اسے واش روم میں چھوڑ کر اس کی ساس کی طرف دوڑی تاکہ میں اسے بتا سکوں کہ آپ کی بہو سیریس ہے، فوراً سے ہسپتال لے جاؤ۔ لیکن تب تک وہ کلینک سے نکل چکی تھی۔ میرے چودہ طبق اس وقت روشن ہوئے جب میں اس کے پیچھے کلینک سے باہر نکلی اور میں نے اسے چنگ چی(موٹرسائیکل رکشہ)میں بیٹھے دیکھا۔ وہ ظالم نے اپنی حاملہ بہو کو آخری تیس منٹ میں چنگ چی میں بٹھا کر ہمارے کلینک تک لائے تھے۔ بوڑھی ساس کو میں نے صرف اتنا کہا کہ جلدی کوئی انتظام کریں آپ کی بہو انتہائی نازک حالت میں ہے۔ جواب میں اس 70 سالہ خاتون نے میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جسے میں نے اس کے دونوں گردے مانگے ہو۔

میں واپس دوڑتی ہوئی واش روم کے پاس پہنچی جہاں پچاس سکینڈ پہلے میں نے اس حاملہ عورت کو چھوڑا تھا۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی جب میں نے واش روم سے نومولود بچی کے رونے کی آواز سنی۔ واش روم کا دروازہ پہلے سے آدھا کھلا تھا۔ میں جلدی اندر داخل ہوئی، دیکھا عورت نے ایک خوبصورت بچی کو جنم دیا تھا۔ ماں کی بے لوث محبت اور شفقت میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ ماں خود نیم بے ہوشی کی حالت میں ساکن پڑی تھی اور بچی کے جسم کا نچھلا حصہ کموڈمیں جبکہ سر ماں کے ہاتھوں میں تھا۔ میں نے بچی کواٹھایا اور اس کی ماں کو سہارا دے کر کلینک کے چارپائی تک لے آئی۔ میں اب بھی سوچتی ہوں کہ اتنا حوصلہ مجھ میں آیا کہاں سے، کیونکہ میں اتنی نرم دل اور نازک ہوں کہ کاکروچ، چھپکلی، چوہوں وغیرہ سے ڈرجاتی ہوں۔

اس دوران میں نے بڑی بہن کو فون کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے مجھے چند انجکشنز کے نام اور طریقہ بتایا، میں نے بھی اپنی طبی کیریئرکا آغاز کرتے ہوئے اسے انجکشن لگائے۔ جب اس کی حالت تھوڑی بہتر ہوئی تواس نے مجھے بتایا کہ یہ میری پانچویں بیٹی ہے۔ چند مہینے قبل الٹراساونڈ سے ہمیں پتہ چلاتھا۔ دور جاہلیت اور موجودہ دور میں یہی فرق ہے کہ اس دور میں الٹراسانڈ نہیں تھا اس لئے کم ازکم بچے کی لالچ میں تو ماں کی صحت کا خیال رکھا جاتا تحالیکن اب تو پیدائش سے چند مہینے پہلے بچی کی ماں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنا شروع ہو جاتا ہے۔

اس دن سے میری ساس سمیت تمام گھر والے مجھ سے جانوروں کی طرح برتاؤ کررہے تھے۔ کیونکہ میں بیٹیوں کی ماں ہوں اور میرے گھر والوں کو بیٹا چاہیے۔ چار گھنٹے پہلے میرا درد شروع ہوا تھا لیکن گھر والے جان بوجھ کر مجھے ڈاکٹر کے پاس نہیں لا رہے تھے کہ بیٹی ہے اس پر خرچہ کرنے کی ضرورت نہیں گھر ہی میں ٹھیک ہوجائے گی۔

سافٹ اینجل(فرضی نام) نے مجھے بتایاکہ یہاں تعلیم یافتہ طبقہ سمیت95 فیصد لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر دکھی ہوتے ہیں۔ تقریباً 75 فیصد حاملہ عورتوں کو آخری تیس سے پندرہ منٹ میں یہاں لایا جاتاہے۔ پہلے گھر میں پیسے بچانے کی لالچ میں انتظار کیا جاتا ہے لیکن جب مریض کا درد بڑجاتا ہے اور بچہ پیدا نہیں ہوتا تو دوڑ کر ہمارے پاس لایا جاتاہے۔ اور تقریباً 35 فیصد لوگ اپنی حاملہ عورت کو گھر سے باہر نکالنا پختون روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔

میرے خیال سے اس سنگین مسئلے کے حل میں علماء کرام، ڈاکٹرز اور میڈیا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).