اردوآن اور پاکستان میں مغالطے


اتوار 24 جون کے روز ترکی میں پارلیمنٹ کی چھے سو سیٹوں اور نئے صدارتی اختیارات حاصل کردہ صدر کے لیے عام انتخابات منعقد ہوئے، جس میں صدر رجب طیب اردوآن 52.38 فیصد ووٹ حاصل کرکے اگلے پانچ سالوں کے لیے صدارت کا انتخاب جیت گئے ہیں۔ یعنی ڈھائی فیصد اکثریت کے ساتھ۔ اُن کی جیت میں فیصلہ کن کردار ترکی کی ایک معروف قوم پرست جماعت، ملی حرکت پارٹی نے ادا کیا، جس نے 11.3 فیصد ووٹ کے ساتھ ان کا اتحادی بن کر اُن کو صدارت کے عہدہ تک پہنچایا۔ اسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے وہ پچھلے سال 1.5 فیصد ووٹوں سے صدارتی نظام لاگو کرنے کا ریفرنڈم جیتے تھے۔

ہمارے وطن عزیز کے اُن مذہبی لوگوں کے لیے میں اِن حقائق کو بیان کرنا چاہوں گا، جو ترک سیاست اور حالیہ انتخابات میں برپا ہوئے۔ صدر طیب اردوآن کی اتحادی پارٹی، ملی حرکت پارٹی ایک تنگ نظر ترک قوم پرست اور کُردوں کے خلاف سخت گیر موقف رکھتی ہے۔ وہ مصطفی کمال پاشا اتاترک کو سیاست، قوم، وطن کے حوالے سے اوّل وآخر سمجھتی ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں غلط خبروں پر یقین رکھنے والوں اور اپنے بُنے خوابوں میں رہنے والوں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے کیوں کہ طیب اردوآن بھاری اکثریت سے نہیں جیتے، 2.5 فیصد سے کم اکثریت اور اس میں بھی ساڑھے گیارہ فیصد ووٹ اس دوسری قوم پرست اور کمالسٹ پارٹی کا ہے۔

پاکستان کے ان رجعت پسند عناصر کا ٹرکش ویو درست کرنے کے لیے یہاں چند حقائق عرض کروں گا۔ طیب اردوآن نے اپنی حالیہ انتخابی مہم میں اسلام، مذہب یا اسلامی اُمہ کا نہیں بلکہ ترک قوم کا ہی سہارا لیا ہے اور اس کے ساتھ عوامی فلاح وبہبود۔ اس لیے پاکستان کے ان رجعت پسندوں کو اپنی قوم کو گمراہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ دیگر چند حقائق۔ ترکی میں پچھلے تقریباً دو سال سے مسلسل ایمرجینسی نافذ ہے جو یہاں کی ایک اسلامی تحریک، فتح اللہ گلین کی ناکام فوجی بغاوت سے نمٹنے کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس طرح ترک قوم بشمول طیب اردوآن اُن کے اتحادی اور اپوزیشن اس اسلامی تحریک کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور اس کو ناکام فوجی بغاوت کا سرغنہ قرار دیتے ہیں۔ اس ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملی حرکت پارٹی جوکہ تنگ نظر قوم پرستی پر یقین رکھتی اور اتاترک کو اپنا اوّل وآخر سمجھتی ہے، طیب اردوآن کے ساتھ تین اہم نکات پر اتحادی ہے۔

۔ 1 کُردوں کے خلاف سخت فوجی آپریشن اور اُنہیں کچلنا۔
۔ 2 ترکی میں فتح اللہ گُلین کی اسلامی تحریک سے نمٹنا۔
۔ 3 اقتدار میں شراکت داری۔

طیب اردوآن حالیہ انتخابات کے بعد صدارت کا منصب سنبھالیں گے اور یہ کمالسٹ، تنگ نظر قوم پرست ترک جماعت اپنا نائب صدر نامزد کروائے گی۔ لہٰذا طیب اردوآن پچھلے دو سالوں سے ترک سیاست میں ترک قوم پرستی کی بنیاد پر اپنی سیاست، مقبولیت اور اقتدار کو قائم رکھنے اور مزیداختیارات حاصل کرنے میں گامزن تھے۔ ہمارے ملک میں جو لوگ اُن کے اندر اسلامی خلیفہ دیکھ رہے ہیں، وہ درحقیقت اپنے آپ کو مغالطوں میں رکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اور اسی طرح سیاسی لیڈر اور دانشور اپنے گرد لوگوں کو غلط معلومات پہنچا کر اپنے اسی افکار کی کامیابی دیکھ رہے ہیں جوکہ سراسر لغو ہے۔ وہ ترکی کی سیاست پر اپنا نقاب ڈال کر پیش کررہے ہیں۔

ترکی میں آزاد ئی اظہار کی کیا صورتِ حال ہے، اس بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ سولہ سال سے حکمران جماعت کا اقتدار ہر تین چار سال بعد کسی نہ کسی نئی ترکیب سے تیار کیا جارہا ہے۔ اس دوران ترکی میں کیا جمہوریت مضبوط ہوئی ہے یا کمزور، ترک سرحدیں جنگوں سے محفوظ ہوئی ہیں یا جنگوں کا میدان بنی ہیں، اس بارے میں بھی یقینا سب لوگ آگاہ ہیں۔ ترکی میں موجود معاشی ترقی کے حوالے سے مختصر معلومات میرے گزشتہ کالم میں شائع ہوچکی ہیں۔ مزید یہ کہ ترکی میں دو روز قبل ہونے والے انتخابات کس قدر شفاف تھے، اس بارے میں اپوزیشن جماعتوں اور عالمی میڈیا کی جانب سے بہت سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

ترکی میں اپوزیشن جماعتوں کے پلیٹ فارم سے محرم اینجے کے جلسے میں ترک اپنی تاریخ رقم کرگئے ہیں۔ ازمیر میں تیس لاکھ، انقرہ میں دس لاکھ اور استنبول میں پچاس لاکھ اور اسی طرح دیگر شہروں میں جلسے۔ کیا ہم ان بھرپور اور حیران کر دینے والے جلسوں کو ایک صحافی یا دانشور کے طور پر خبر تصور نہیں کریں گے؟ اپوزیشن کے صرف بڑے جلسے ہی اہم نہیں بلکہ محرم اینجے کی کرشماتی قیادت کا ظہور ترک سیاست میں ایک متبادل امید ہے۔ اُن کا اِن انتخابات میں ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھرنا جہاں اردوآن کی مقبولیت کے لیے چیلنج بھی ہے، جن کے اردوآن کے مقابلے میں صرف دس فیصد ووٹ کم ہیں (ملی حرکت پارٹی کے ووٹوں کے بغیر) تو دوسری طرف ترک عوام کے لیے ایک امید بھی۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں سرحدوں سے پار سیاست کا زیادہ تر تجزیہ خوابوں، خواہشوں اور مبالغوں پر کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔

حالیہ انتخابات میں اہم بات یہاں کی مکمل سوشلسٹ پارٹی، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کا ابھرنا ہے، جس نے 12 فیصد کے قریب ووٹ لیے، جس کے رہنما صلاح الدین دیمرتاش کو بغیر مقدمہ چلائے دو سالوں سے پابند سلاسل کررکھا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ترک پارلیمنٹ میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت بن کر ابھری ہے۔ یوں پاکستان میں خوابوں اور مغالطوں میں رہنے والے یہ لوگ درحقیقت دانشورانہ بے ایمانی کررہے ہیں۔ ایک اور مغالطہ یہ کہ کچھ لوگ ترکی میں حالیہ ہونے والے انتخابات میں 87 فیصد ٹرن آؤٹ پر حیران ہوئے جارہے ہیں، اُن کے لیے اطلاع ہے کہ ترکی، دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔ ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں ماضی میں 98 فیصد تک بھی ووٹوں کا ٹرن آؤٹ رہا ہے۔

اپوزیشن لیڈر محرم اینجے کو بحیثیت صدارتی امیدوار صرف ڈیڑھ ماہ قبل بحیثیت ایک متبادل لیڈر کے طور پر اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلزپارٹی نے نامزد کیا۔ اس لیے صدر جناب طیب اردوآن کے مقابلے میں اُن کا سیاسی وجود ایک مقبول لیڈر کے طور پر صرف ڈیڑھ ماہ پہلے ظاہر ہوا، جبکہ طیب اردوآن پچھلے سولہ سالوں سے نہایت مقبول لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور جن کو حکومت اور ریاست کے تمام اقتدار اور اختیارات تک بلاروک ٹوک رسائی حاصل ہے۔

ان سب حقائق کے بعد مختصر عرض یہ کہ بعد از انتخابات ترکی کی سیاسی صورتِ حال بہت اہم ہے۔ ملک کے اندر اور خطے کی سیاست کے حوالے سے، ملک کے اندر معیشت کی بحالی، کُردوں کا مسئلہ، شام اور عراق کے ساتھ بڑھتا ہوا تنازع اور روس کے مزید قریب ہوکر خطے میں کردار۔ ایک بار پھر ان خوابوں اور سرابوں میں گم ہونے والوں کے لیے عرض ہے کہ طیب اردوآن اور ساری قوم کو اس سارے پس منظر میں اوّل وآخر ترکی، ترک اور اپنی سیاست سے غرض ہے۔ البتہ عالمی رائے عامہ میں لیڈر لیس نیشن کے حوالے سے مسلم اقوام میں کئی لوگ اردوآن کے اپنا خلیفہ ہونے کا خواب دیکھتے ہیں، تو یہ اُن کی اپنی خواہشات ہیں۔ ترک بحیثیت قوم ایسے کسی خواب، واہمے یا سیاسی منزل کے خواہاں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).