شفاف انتخابات اور سرکاری مشینری کے متنازع کارندے


عمران خان کے دھرنے کی بعد سے تین سال تک یہی سنتے آئے کہ نواز حکومت اب گئی اور کل گئی۔ بلکہ دو ہزار چودہ میں شیخ رشید صاحب نے تو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی۔ یعنی قربانی والی عید سے پہلے نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا اور عام انتخابات نہیں ہونگے۔ لیکن وہ اور ان کے ہم نوا یہ کہتے کہتے تھک گئے پر نون لیگ کی حکومت نے اپنی مدت پوری کر لی، چاہے شاہد خاقان عباسی جیسے وزیر اعظم کے ذریعے ہی سہی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ نواز شریف کو پانامہ کیس میں ایک اقامہ نکل انے پر گھر بھیج دیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ خوش آیند تبدیلی ہے کہ دوسری منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔ اور انتقال اقتدار پر امن طور پر ہوا۔ اس سے پہلے پیپلزپارٹی نے دو ہزار تیرہ میں اپنی مدت پوری کی تھی ۔ انتخابات اور سول حکومتیں اسی طرح اپنی مدتیں پوری کرتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جس دن ہماری جمہوریت کی مثالیں دی جائیں گی۔

تاہم جاتے جاتے نواز لیگ اور اس کے نوازے ہوے سرکاری افسر اپنا کام دکھا گئے۔ سب سے پہلے بابر یعقوب فتح محمد جو اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری ہیں، نواز دور میں ہی بلوچستان، گلگت بلتستان اور پنجاب کے چیف سیکٹریٹری رہے۔ اور نواز شریف اور ان کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے بہت قریبی مانے جاتے ہیں کیوں کہ جب وہ بلوچستان میں تھے تو وہاں کے ایک ڈی آئی جی رینک کے افسر کے مطابق وہ آئی جی  بلوچستان کے خصوصی جہاز پر ہر ہفتے اسلام آباد آیا کرتے تھے۔ مقصد صرف ان دونوں کو خوش کرنا اور تحفے تحائف پہنچانا ہوتا تھا۔ اس خصوصی طیارے کی لاگ بک سب اگل کر رکھ دے گی۔ یعقوب صاحب دو ہزار پندرہ میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے سے چند ہفتے پہلے الیکشن کمشن کے سیکریٹری مقرر کر دیے گیے۔ نگران دور میں الیکشن کمشن، خاص طور پر سیکریٹری الیکشن کمشن کے پاس سب سے زیادہ اختیارات ہوتے ہیں، یہاں تک کہ سرکاری افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگز بھی ان کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ اور وہی ہوا جسے پیا نے چاہا، اسے ہی اچھی پوسٹنگ ملی۔چاہے وہ اسکا اہل تھا یا نہیں۔۔ جو افسران فواد حسن فواد کے زیرعتاب تھے وہ آج بھی اسی طرح زیر عتاب ہیں۔

نگران دور کی پوسٹنگز میں سب سے پہلے لیجیے، پنجاب کے لگائے گئے چیف سیکریٹری اکبر حسین درانی کو، جو بلوچستان کے ہوم سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کے دو بچوں کے لئے ایک خط نمبر , SO (B&A) 5-30/2015-2016/ 6607-612 ہوم ڈیپارٹمنٹ سے تیس نومبر دو ہزار پندرہ میں نکالا گیا جس کی کاپی میرے پاس موجود ہے۔ خط کے مطابق ان کے بیٹے جہانزیب درانی کی برطانیہ کی ٹرینٹ یونیورسٹی نوٹنگھم سے تعلیم کے اخراجات کے لئے تیس لاکھ چالیس ہزار روپے کی رقم منظور کی گئی جب کہ ان کے دوسرے بیٹے گل زیب درانی کے لئے کراچی کے التمش ڈینٹل انسٹیٹوٹ کی اگلے تین سال کی فیس جو انیس لاکھ پچاس ہزار تھی اس وقت کے وزیراعلی ثنا اللہ زہری نے خصوصی نوازش اور بابر یعقوب کے کہنے پر منظور کی جو مجموعی طور پر پچاس لاکھ کے قریب رقم بنتی ہے۔

اب لیجیے سندھ کے نئے چیف سیکریٹری جناب اعظم سلمان خان کو، ان کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جب وہ ڈی سی او ملتان تھے اس دوران جنرل مشرف کا ریفرنڈم ہوا تو انہوں نے مشرف کے حق میں تین سو فیصد ووٹ ڈلوا دئیے جب اس وقت کے فوجی گورنر خالد مقبول نے ان سے میڈیا کی موجودگی میں ملتان ایئر پورٹ پر باز پرس کی تو موصوف نے کہا “سر آپ نے ہی تو کہا تھا”۔ یہ بھولا بادشاہ اپنے محبوب حکمرانوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔

اختر نذیر وہ واحد چیف سیکریٹری ہے جسے گریڈ اکیس میں ہونے کے باوجود چیف سیکرٹری لگا دیا گیا اور وہ بھی بلوچستان جیسے صوبے میں۔ جبکہ خیبر پختون خواہ میں نوید کامران بلوچ کو لگایا گیا جو گریڈ سترہ ہی میں اپنے کارناموں کے لیے مشہور ہو گیا تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ عام انتخابات کے دوران سیکریٹری الیکشن کمیشن اور تمام چیف سیکریٹریوں کا رول بہت اہم ہوتا ہے کیوں کہ سرکاری مشینری کو انہی نے استعمال میں لانا ہوتا ہے، ماضی میں بیلٹ باکس بھی یہی بھرتے رہے ہیں۔ اب ان افسران کی موجدگی میں کس طرح شفاف انتخابات ہوں گے یہ سب کچھ ان کا ماضی کھل کر بتا رہا ہے۔ ان افسران کی پوسٹنگز پر سوال اٹھنا شرع ہو چکے ہیں لیکن اگر ان کی نگرانی میں انتخابات ہو گئے تو زیادہ واویلا مچے گا۔۔

(کالم نویس سینیئر براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).