ووٹر کو پانی بھی دو


اگلے عام انتخابات کے لیے الٹی گنتی شروع ہوگی۔ بڑے مقابلے میں کامیابی کے بعد سلطنت کے تخت پر راج کرنے کے سپنے ہر رہنما نے آنکھوں میں سجا لیے ۔ سیاسی مخالفین کے ایک دوسرے پر سنگین الزامات، جھوٹے پروپیگنڈوں کے ساتھ ذاتیات پر حملوں اور تبصروں کا سلسلہ تیز ترین ہوگیا۔

کوئی غیر اشاعت شدہ کتاب کے مسودے پرحیران تو کوئی نیب کی کارروائیوں سے پریشان، ایک پارٹی تو اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے مراحل سے باہر آنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے ۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر سیاسی جماعتیں تقسیم در تقسیم بلکہ برسوں پرانی سیاسی وفاداریوں سے بھی ہاتھ دھوتی نظر آرہی ہیں۔

کپتان گیارہ نکاتی ایجنڈے کے ساتھ میدان میں آئے جبکہ بعض سیاسی جماعتیں انتخابی منشور کے بغیر ہی ساتھ عوام کے سامنے کود پڑیں۔ 25 جولائی کے انتخابی دنگل میں حصہ لینے کے لیے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز کیا ہوا، بھولے عوام ہر گھنٹے کسی نہ کسی انتخابی اُمیدوار کی لفاظی سے بھرپور تقاریر سننے بلکہ برداشت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

ایک نہیں پانچ میڑو ٹرینیں چلائیں گے ۔ اگلے چھ ماہ میں شہر کا کچرا صاف کرکے دکھائیں گے ۔ تین سالوں میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کریں گے ۔ گویا پرانی پیکنگ میں نیا مال بلکہ منجن دھڑا دھڑ فروخت ہورہا ہے ۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ قومی سیاست کے بیشتر پرانے چہرے کمر کس کر الیکشن کی بساط پر بازی لگانے کے لیے ایک بار پھر تیار ہوگئے ۔ عام انتخابات لاکھ جمہوری عمل سہی لیکن موروثی سیاست پوری طرح اپنی پنجے گاڑے ہوئے ہے ۔ اس طرز سیاست یا قیادت کا تفصیلی ذکر پھر کبھی کریں گے ، اس وقت بات ایک اہم قومی مسئلے بلکہ المیے کی جو نا صرف ملکی بلکی عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔

مسائل کے گرداب میں پھنسا ملک کا معاشی حب سیاسی قائدین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ کم و بیش تمام سیاسی رہنماؤں کو کراچی کے دکھ یاد آگئے ۔ شہر میں برسوں سے پڑے پڑے سڑنے والے کوڑے کرکٹ پر ہونے والی سیاست نے اب پانی سے محروم عوام کے درد کو محسوس کرلیا۔ یہ کھرا سچ ہے کہ ناکام حکومتی پالیسیوں، ناقص منصوبہ بندیوں، پانی کے شعبے میں ہونے والی شدید بد انتظامی کے باعث کراچی کے عوام کی بڑی تعداد کئی دہائیوں سے سیوریج ملا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے ۔

ساحل کے قریب بسے باسیوں کو پانی جیسی نعمت سے محروم رکھنا گزری ہوئی تمام حکومتوں کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ووٹ کو عزت دو کاترانہ لے کر انتخابی اکھاڑے میں آنے والی جماعت جو بدعنوانی کے مقدمات میں گردن تک دھنسی ہوئی ہے ، مذکورہ لیگ کے سابق اور حاضر صدور کی نجی سرگرمیاں عام انتخابات کے بے حد قریب، احتساب یا یوں کہہ لیں کہ یوم حساب سے خائف برطانیہ میں مقیم ہیں۔

خاندان کی حرکات کو سکنات بشمول بیانات بلا ناغہ میڈیا کی شہ سرخیوں کا لازمی حصہ ہیں۔ صاف پانی کیس میں نیب سے فرار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے دورہ کراچی کے موقع پر کراچی کو لاہور میں بدلنے کا انوکھا وعدہ کر ڈالا۔ گویا چھوٹے میاں صاحب سبزے سے محروم شہر کے عوام کو سبز باغ دکھا گئے ۔ گیت گنگنائے ، بلکہ اشعار بھی سنائے ۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ شہرکراچی کو پیرس تو کبھی لاہور میں تبدیل کرنے کی باتیں کیوں کی جاتی ہیں؟ شہر قائد کے دیرینہ مسائل کے حل میں رکاوٹ آخر کون بنا رہا؟ پیرس بنانے کے دعوے دار خادم اعلیٰ کیا گذشتہ دور حکومت میں کبھی کراچی تشریف نہیں لائے ؟

صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں سمیت ملک کے مجموعی مسائل کے حل کے دوران صوبہ سندھ کو ہمیشہ نظر انداز کیوں کیا جاتا رہا؟ عوام کے ذہن میں ایک سوال یہ بھی سر اُٹھا رہا ہے کہ گذشتہ دور حکومت میں سندھ خاص طور پر کراچی کے مسائل حکمرانوں کو کیوں نہ نظر آئے ؟ کوئی ہے جو اس راز سے پردہ اُٹھائے کہ سندھ کے شہری علاقوں کو اس حال تک پہنچانے کا اصل ذمہ دار کون یے ؟

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اربوں کھربوں کے صوبائی بجٹ کا کیا اور کہاں استعمال ہوتا رہا؟ گذشتہ دس سالوں کے دوران منتخب حکومتوں نے صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر کبھی سوال کیوں نہ اُٹھایئا؟ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں نے عوامی خدمت کے لیے کیا کبھی کچھ کرکے بھی دکھایا؟ برسوں سے ملک پر راج کرنے والی ناکام لیگ کو کراچی محض انتخابی مہم کے دوران ہی کیوں یاد آیا؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ زیادتیوں کی دلدل میں دھنسے سندھ کے مسائل کو بہانہ بنا کر یہاں کے مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہو؟ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جانے والی کراچی کی قدیم لیکن منتشر جماعت کی کمزوری سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہو؟ یہاں پر راج محض دیوانے کا خواب ثابت ہوسکتا ہے ، اگر شہر کا درد رکھنے والی جماعتیں اس سے مخلص اور متحد ہوجائیں۔ وہ تیر ہو یا پتنگ، مگر ہوں حقیقی معنوں میں عوام کے سنگ۔

نظر انداز شہر میں انقلاب لانے کے خواب دکھانے والی ن لیگ ووٹ کی عزت کا تقاضہ تو کرتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ووٹر کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ہمیشہ بری طرح ناکام رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کارکردگی کی نہیں بلکہ نظریاتی بنیاد پر شدید ترین اختلافات کا شکار ہوکر قومی مفاد کے لیے ایک ذہن اور ایک سوچ کی حامل نہیں۔

ابر رحمت کے ترسے کراچی کے شہری اس وقت حسرت سے دیگر صوبوں کی جانب دیکھ رہے ہیں جہاں قدرت فرصت سے مہربان ہوری ہے ۔ ایسے میں قحط سالی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید ڈیمز بنانے کے ضرورت پر سیاست کا سلسلہ کاش تھم جائے ۔

یاد رکھیے ، آپ کے ووٹوں سے منتخب حکومت کے آنے کے بعد بھی حکمرانوں کی نیت میں تبدیلی نہ آئی تو 2025 تک ملک پانی جیسی نعمت سے محروم ہوجائے گا۔ حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے عوام ہر گز یہ نہ بھولنے پائیں کہ پانی کا کیس جس کے گلے کا پھندا بنتا جا رہا ہے کیا کبھی وہ اس مسئلے کا حل تلاش بھی کر سکے گا؟

عوامی بیٹھکوں میں لہک لہک کر گیت سنانے والے سیاست دان کی بڑی کرپشن کی کارستانیوں پر سے پردہ اُٹھنے میں اب دیر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).