منشور کہاں ہے؟


عام انتخاب ایک ماہ کی دوری پر ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں ابھی بھی اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ کسے ٹکٹ دیا جائے کسے نا دیا جائے۔ لوٹوں کے حصارمیں مبتلا جماعتوں نے  ابھی تک منشور دینا گوارا نہیں کیا۔  جو سیاسی لیڈران کیمپین پر نکل چکے ہیں ووٹرز کی طرف سے انہیں کھری کھری سننا پڑ رہی ہیں ۔ ان کت ساتھ جو ہورہا ہے اس کی ذمہ دار بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنے ووٹر کوابھی تک یہ شعور نا دے سکیں کہ تنقید اور سوالات کس بنیاد پر کئے جانے چاہیئں۔ کل تک جو اپنے ووٹر کو مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی تربیت دیتے تھے آج خود اسی کیچڑ کی ضد میں ہیں۔ شعور صرف ذاتیات کی بناٗ پر مخالفین پر تنقید کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک واضح اور جامع پروگرام سے آگاہی ہے جس کی بناٗ پرایک ووٹر ایک سیاسی جماعت کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اور اسی بنا پر اسکی سپورٹ یا مخالفت کرنے کا فیصلہ ہے۔

دنیا میں تمام سیاسی جماعتیں الیکشن میں جانے سے قبل ایک واضح منشور پیش کرتی ہیں۔ جس میں وہ اقتدار میں آنے کے بعد کا لائحہ عمل بتاتی ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوریتیں ہر جماعت کے منشور پر بحث کرتی ہیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس منشور کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس منشور میں حقائق، حکومت میں آنے کے بعد کی ترجیحات اور ہر ایک ایشو پر ایک مفصل  اور جانع پالیسی بیان کی جاتی ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، چھت، ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، گو کہ ہر ایک چیز سے متعلق واضح پروگرام دیا جاتا ہے۔

چونکہ ووٹر کی بڑی تعداد اس منشور پر گہری نظر رکھتی ہےاس لئے یہ منشور صرف وعدے یا دعوے نہیں رہتے بلکہ مقتدر سیاسی جماعت ہر ممکن حد تک اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر وہ اس منشور پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اگلے انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بناٗ پرعوام میں ووٹ مانگنے جاتی ہے اور انہیں اس طرح کی ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس طرح پاکستان کے سیاست دانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا المیہ رہا ہے کہ انہوں  نے منشور کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ سیاسی جماعتیں نا صرف ووٹر بلکہ اپنے کارکنان کو بھی منشور کی تربیت نہیں دے سکیں ۔ سیاسی جماعتوں کے ووٹر ، سپورٹر، کارکنان حتی کہ لیڈران کی بہت بڑی تعداد منشور کو پڑھنا گوارا نہیں کرتی۔ آئین پاکستان کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل منشور پیش کرنے کی جو تنبع کی گئی ہے اس وجہ سے پارٹی کے چند رہنما، اور کچھ سیاسی مبصرین مل کر رسما ایک منشورنامی دستاویز تیار کرتے ہیں جسے لکھتے وقت پارٹی کے کارکنان اور نمائندوں کی رائے لینا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔

یہاں کامیابی کا معیار بہتر منشور نہیں بلکہ مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ جو پارٹی بہترین کیچڑ اچھالنا جانتی ہے انتخابات  میں واضع برتری حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیڈران جلسوں میں سوائے تنقید، گلیاں نالیاں پکی کروانے جیسی

خستہ کارکردگی، جھوٹ اور بلندو بالا دعووں کے سوا کچھ نہیں کہہ پاتے۔

اس وقت جب انتخابات سر پر ہیں۔ نمائندوں کو عوام میں جانا ہے۔ ان کے پاس کوئی  نا کوئی لائحہ عمل ہے نا  ہوم ورک، نا کارکردگی کو لیکر اعدادو شمار جن کی بناٗ پر ووٹ مانگے جائیں۔

منشور ہی وہ آلہ ہے جس کی بنا پر کسی بھی جماعت کا نظریہ، وژن، عزم اور مسائل کو حل کرنے کی سنجیدگی سے متعلق جانچا جاتا ہے۔ مگر اس بھولے بسرے عوام کو جمہوریت کے اس بنیادی ماخذ سے دور رکھا گیا ہے۔ انتخابات آکر گزر جاتے ہیں سیاسی جماعت کے پاس منشور کی ایک ہی نقل رہتی ہے جس کے متعلق کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہے؟  میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں ہے؟ شاید ماڈل ٹاؤن دفتر کے کسی نیچے والے دراز میں، بنی گالہ کی چھت پر جنوں کے حصار میں یا شاید اسکے اوراق بلاول ہاؤس کے سیکورٹی گارڈ کو ہوا دینے میں مصروف عمل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).