حلقہ  پی بی 51 گوادر  اور این اے 272 گوادر


ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی اس وقت امیدوار اور ان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور انداز میں اپنے اپنے الیکشن مہم چلاہی جارہی ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور ایک دوسرے کے حق میں دستبرداری کا سلسلہ اب جاری ہے۔ بلوچستان میں حلقہ پی بی 51 گوادر اور این اے 272 گوادر کم لسبیلہ کی اہمیت گزشتہ کئی سالوں سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سی پیک، گوادر پورٹ اتھارٹی اور دیگر پروجیکٹس جنہیں آئندہ مکمل ہونا ہے اور گوادر میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی متوقع آمد اور یہاں کے غریب اور لاچار مقامی ماہی گیروں اور پرانی آبادی کی بنیادی حقوق کے لئے قانون سازی کی بات کی جارہی ہے۔ مگر دوسری جانب مقامی آبادی اپنے بنیادی حقوق اور مستقبل کے لئے کافی پریشان دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ حکومت اس حلقے سے ایسے امیدوار لانا چاہتی ہے، جو بعد میں حکومت اور اداروں کے لئے درد سر کا باعث نہ بنے۔

اس حلقے کی اہمیت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس حلقے کے لوگ آج بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے خدشات اور تحفظات بڑھنے کے ساتھ ساتھ مایوسی کی طرف گامزن ہیں۔ یہاں سے منتخب عوامی نمائندوں نے کبھی بھی اس حلقے کے بہتری کے لئے کوئی ایسی اقدام نہیں اٹھایا ہے جو کہ ان کی بہتر کارکردگی دکھانے میں مدد دے۔ اب الیکشن کے موقع پر ایک بار پھر ایک درجن سے زائد امیدوار میدان اتر چکے ہیں۔

ان میں سابقہ ایم پی اے میر حمل کلمتی، نیشنل پارٹی کے امیدوار اشرف حسین، بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار اور سابق ایم این اے میر یعقوب بزنجو قابل ذکر ہیں۔ جبکہ گوادر کم لسبیلہ نیشنل اسمبلی کے لئے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل، جام کمال خان عالیانی، پرنس علی احمد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ لسبیلہ کو گوادر سے حال ہی کے نئے حلقہ بندیوں کے موقع پر ملایا ہے۔ لسبیلہ کے سابق عوامی نمائندوں اور موجودہ انتخابی امیدواروں کی کارکردگی گوادر کے سابقہ امیدواروں سے کافی بہتر رہا ہے۔ جس سے یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ متوقع الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے۔

گوادر میں سابق ایم پی اے اور سابق ایم این اے کا تعلق سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی سے رہا ہے، انہوں نے اپنے دور میں گوادر کے عام ووٹر کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ جس کے باعث عام آدمی مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت گوادر ضلع میں پانی کی بحران اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے ماہی گیروں کو سمندر میں گجہ اور ٹرالنگ مافیا کا سامنا علاوہ ازیں بیروزگاری بھی یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انہی سیاسی پنڈتوں نے سفارش کلچر متعارف کرا کر عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

اب سابقہ عوامی نمائندوں کی مایوس کن کارکردگی کی بنیاد پر نئے چہروں سے عام آدمی زیادہ پرامید نظر آتی ہے۔ حلقہ پی بی 51 گوادر سے سابقہ ایم پی اے میر حمل کلمتی کے مقابلے میں نیشنل پارٹی کے امیدوار اشرف حسین اور بلوچستان عوامی پارٹی باپ کے امیدوار میر یعقوب بزنجو کو زیادہ پسند کیا جارہا ہے۔ کیونکہ عام لوگوں کی یہ توقعات ہیں کہ وہ الیکشن جیت کر عوام کی حق نمائندگی بہتر انداز میں ادا کریں گے۔ یعقوب بزنجو جو کہ اس سے قبل بھی ایم این اے رہ چکا ہے، اس وقت کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو اتنی اچھی نہیں ہے۔ تاہم لوگوں کو ان کی پارٹی باپ سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔

اشرف حسین جو کہ خود گوادر شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اس علاقے اور عام آدمی کے بنیادی مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ انتہائی ہمدرد اور غریب پرور شخصیت کے مالک ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس حلقے کی سیٹ کون جیت کر حق نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ محنت کش طبقہ اور مقامی ماہی گیروں کی توجہ فلحال نیشنل پارٹی کے امیدوار اشرف حسین کی طرف ہے۔ کیونکہ اسے آج تک نمائندگی کی شرف حاصل نہیں ہوئی ہے، اس لئے ان سے زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).