فرزانگی، دیوانگی


ہم سبھی کے اندر ایک مہان دیوتا چنگھاڑتا تھا مگر اِس کے باوجود ہم مضحکہ خیز بالشتیوں کے سوا کچھ بھی نہ بن پائے!
ہم دیوتا بھی ہو سکتے تھے مگر جو نہی ہم نے بچپنے کی دیوار عبور کی، ہمارے اجداد نے خوف کی پٹاریاں کھولیں اور ہمارے کانوں میں سنپولیے ڈال دیے!
ہم جو سمندروں کا پانی ایک گھونٹ میں پی جانے کی شکتی لے کر پیدا ہوئے تھے بالآخرچِلّو بھر پانی میں ڈوب کر مر جائیں گے اور جئے بغیر مر جانا یقیناً ایک فحش مذاق ہے!

روز، ہم اپنے چہروں پر اُنہی پرانے رنگوں کا آمیزہ تھوپ کر زندگی کے تھیٹر میں اپنا اپنا پارٹ ادا کرتے ہیں جو نہایت بیزار کن اور اِس حد تک یکسانیت زدہ ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم سب ایک ہی مسخرے کا کردار نبھا رہے ہوں۔ وہی دو چار لطیفے اور مکالمے ہیں جو ہم مسلسل دہراتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار تو یہ بھی گماں ہوتا ہے کہ ہم زندگی نہیں کرتے بلکہ زندگی کی نقالی کرتے ہیں اور زندگی محض بچوں اور پاگلوں کی میراث ہے ؛ تاہم، اِس کے باوجود ہم بچوں اور پاگلوں سے بلند تر سماجی مرتبے کے حامل ہیں کیونکہ ہمارا اجتماعی شعور اُن کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہے!

ہم زندگی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اِس لیے کوئی بھی چیز ہمیں حیران نہیں کرتی جبکہ پاگل اپنی خام علمی کے باعث ہر شے کو نہایت حیرانی کے ساتھ دیکھنے پر قادر ہیں۔ ہر بار اُن کی حیرت کچھ نئے سوالوں کو جنم دیتی ہے اور نئے سوال اجتماعی شعورکو برباد کر سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاگل بھی زندگی کے تھیٹر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں( اور بعض اوقات تو ہم سے بہتر ادا کرتے ہیں) مگر اجتماع کا فیصلہ یہی ہے کہ انہیں نظر انداز کر دیا جائے!

ہم جانتے ہیں کہ سنپولیوں کے چُنگل سے رہائی نا ممکن ہے لیکن پاگل یہ بات سننے پر آمادہ نہیں؛ وہ ہمیں بزدل سمجھ کر ہماری شکست خوردگی کا مضحکہ اڑاتے ہیں کیونکہ اب تک وہ یہ نہیں جان پائے کہ آزادی محض ایک سراب کا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ آزادی کا ایک مکمل خواب دیکھنے کے اہل ہیں مگر خواب جتنا بھی مکمل ہو جائے، پنجرے کی دیواریں نہیں توڑ سکتا!
کبھی کبھار ہم بھی اُن کی طرح سنپولیوں کی قیدسے رہائی کا خواب دیکھتے ہیں مگر جو نہی دیوتا کچھ بولنے کے لیے لب ہلاتے ہیں، ہم ایک جھٹکے سے بیدار ہو جاتے ہیں!
ہماری فرزانگی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ ہم اپنے خوابوں میں بھی پابندِ سلاسل ہیں!
۔ O۔

پہلے جب کبھی سنپولیوں کی توجہ ایک لحظے کے لیے چُوک جاتی تھی تو دیوتاؤں کی چنگھاڑ ہمارے برف ہوتے جسموں میں حدت کی ایک لہر سی دوڑا دیتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنپولیے بڑے ہوتے گئے اور دیو تاؤں کی چنگھاڑ، نقاہت زدہ سرگوشی میں ڈھلتی چلی گئی!

آخری بار جب ہم نے دیوتاؤں کی ڈری سہمی سرگوشیاں سنی تھیں تو اس وقت سنپولیے، اژدھوں میں تبدیل ہو کر اُن کی آخری باقیات کو دھیرے دھیرے نگلتے جار ہے تھے!
یہ اطمینان کرتے ہوئے کہ اُس لمحے اژدھوں کی توجہ ہمارے بجائے کہیں اور مرتکز ہے، ہم نے اپنی سماعتوں کا رخ اندر کی جانب موڑ لیا!

ہم میں سے اکثر تو کچھ بھی سننے یا سمجھنے سے قاصر رہے تاہم کچھ لوگوں نے پورے وثوق سے بتایا کہ دیوتاؤں نے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جانے سے ذرا پہلے حیرت کو زندہ رکھنے کی بات کی تھی!
اگلے روز ہم نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور اُن سب کو پاگل قرار دے کر برادری سے باہر نکال دیا!
۔ O۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).