کراچی میں حادثات پر فوری مدد کا کوئی بندوبست نہیں


باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن سسر کی آنکھوں کا تو گویا پانی ہی خشک ہوگیا تھا، نوجوان کے باپ نے کہا کہ جس طرح آج میرا یاسین گیا ہے اس کے پیچھے جو لوگ بھی ذمہ دار ہیں ان کے بچے بھی اسی طرح مریں گے۔ ان الفاظ کا درد جس طرح اس وقت  ہمارے کانوں کو چیر رہا تھا یقیناً آسمان چیر کر خدا کی بارگاہ میں ایک باپ کی شکایت بھی لیکر اسی طرح پہنچیں ہوں گے۔
نوجوان یاسین 20 جون کو رات تین بجے ڈیوٹی سے واپسی پر حسب معمول اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر کچھ دیر گپ شپ کے لئے بیٹھا تھا کہ اچانک ہی سامنے سے آنے والا کنٹینر سے لدا ہوا دس ویلر ٹرالر ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوا اورفٹ پاتھ پر چڑھ دوڑا، یاسین جو گھر کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا اسے موقع ہی نہیں ملا کہ وہ بھاگ کر خود کو محفوظ کرتا اور وہ منوں وزنی ٹرالر کے پچھلے ٹائروں تلے دب گیا۔
اس کے دوست جوکہ معجزانہ طور پر اس حادثے میں بچ گئے تھے وہ تو گویا سکتہ میں آگئے۔ چند منٹ پہلے وہ آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ان کا دوست ٹنوں وزنی ٹرالر تلے دبا ہوا ہے۔ انہوں نے ٹریفک پولیس، علاقہ پولیس رینجرز سب کو ہی فون کردیا لیکن یاسین کو نکالنے کے لئے کوئی سرکاری  مشینری نہیں پہنچی۔
ڈھائی گھنٹے سے زیادہ تک یاسین اس ٹرالر کے نیچے دبا رہا لیکن کوئی سرکاری مشینری نہیں پہنچی، علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا، ٹائر جلائے، نعرے بازی کی، پتھر برسائے لیکن بے سود، کہیں  سے بھی کوئی مشینری نہیں پہنچی، ڈھائی گھنٹے کے بعد لانڈھی مرتضی چورنگی سے علاقے کے نوجوان پرائیویٹ مشینری لائے، اس نے دس منٹ کے اندر یاسین کو ٹرالر سے نکالا لیکن وہ شاید بےحس معاشرہ کی بے حسی، اپنے ماں باپ کی لاچارگی دیکھ  کر  پہلے ہی مرچکا  تھا۔
یہ واقعہ کسی گائوں دیہات کا نہیں بلکہ کراچی کے علاقے لانڈھی بابر مارکیٹ کا ہے وہ علاقہ جہاں سے میئر کراچی کی جماعت اکثریت سے کامیاب ہوتی ہے، لیکن ان کی پارٹی کا کوئی کونسلر تک مدد کے لئے نہیں پہنچا۔ میں جائے حادثہ پر پہنچنے والا سب سے پہلا رپورٹر تھا اور مجھے خوش فہمی تھی کہ شاید میری خبر بریک ہونے کے بعد مختلف اداروں سے مشینریاں دوڑی چلی آئیں گی۔ لیکن میری خوش فہمی خوش فہمی ہی رہی۔
ڈھائی گھنٹے بعد یاسین کی لاش نکال لی گئی لیکن اس واقعہ کا ذمہ دار کون ہے؟ شاید ارباب اختیار اس کا ذمہ دار مرنے والے نوجوان کو ہی ٹھہرائیں کہ کیوں وہ اتنی رات کو اپنے گھر کے باہر بیٹھا تھا۔
تاہم شہر میں جگہ جگہ پولیس موبائلوں میں موجود اہلکارجو  ہیوی ٹریفک کو رہائشی آبادی سے گزرنے دیتے ہیں وہ اس کے ذمہ دار بالکل نہیں ہیں، اس حادثہ کا ذمہ دار ہیوی ٹریفک کے مالکان بالکل بھی نہیں  ہیں جوکہ بغیر لائسنس کے ڈرائیور رکھ دیتے ہیں، اس حادثہ کا ذمہ وہ تفتیشی افسر  بھی بالکل نہیں ہیں جوکہ اس طرح کے کیسز میں برابر کا ذمہ گاڑی کے مالک کو نہیں ٹھہراتے، اس حادثہ کا ذمہ دار سراسر یاسین تھا کیونکہ وہ ایک غریب شہری تھا اور اس ملک میں غربت سے بڑا گناہ کوئی نہیں ہے۔
یاسین زندگی کی صرف پچیس بہاریں ہی دیکھ سکا تھا، ڈیڑھ سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی اور وہ اپنے بچے کی آمد کا انتظار کررہا تھا، لیکن وہ یہ خوشی دیکھنے سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔مجھ میں مزید اس موضوع پر لکھنے کی ہمت نہیں رہی لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حادثہ کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینا ضروری ہے کیونکہ شہر میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ہیوی ٹریفک کی زد میں اب تک ہزاروں افراد آچُکے ہیں، آج لانڈھی کا یاسین حادثہ کا نشانہ بنا ہے اگر اس صورتحال کو قابو میں نہ لایا گیا تو کل کو کسی صاحب اقتدار کا یاسین بھی ہوسکتا ہے۔
نگراں وزیر اعلی اس واقعہ کی انکوائری کرائیں کہ ٹریفک پولیس کی ریکوری مشینری تین گھنٹے بعد کیوں پہنچی، کے ایم سی کی گاڑی جائے حادثہ پر کیوں نہیں پہنچی، ایس ایس پی اور ڈی آئی جی ٹریفک نے اس واقعہ سے متعلق انکوائری کی یا نہیں اگر نہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
جگہ جگہ اسنیپ چیکنگ کے بہانے ہیوی ٹریفک کو روک کر اور پیسے لیکر رہائشی آبادی سے گزرنے کی اجازت دینے والے تھانیداروں اور انکے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کے ایم سی میں عوام کی مدد کے لئے ہیلپ لائن قائم کیا جائے تاکہ ایسے حادثات کے موقع پر عوام کی مدد کے لئے فورا مشینری پہنچ جائے، شہر میں ترقیاتی کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو پابند کیا جائے کہ حادثات میں ضرورت پڑنے پر وہ فورا عوام کی مدد کے لئے مشینری جائے حادثہ پر پہنچائیں اور ایسا نہ کرنے والوں کو حکومت بلیک لسٹ کرے اور کسی بھی سرکاری ٹھیکہ کے لئے نا اہل قرار دے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).