عام انتخابات: عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے امیدوار


ملک میں عام انتخابات 2018 کے انعقاد میں ایک مہینے سے بھی کم وقت باقی بچا ہے۔ لیکن بڑی سیاسی جماعتیں ابھی تک پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازعات نمٹاتی نظر آرہی ہیں۔ ابھی بھی پارٹیوں کے اندر ”نامنظور نامنظور‘‘ کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ کارکنان تو درکنار مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین بھی اپنی ہی جماعتوں سے ناراض نظر آ رہے ہیں۔ ان اختلافات کے باعث سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں وہ گہماگہمی نظر نہیں آ رہی جس کی توقع کی جارہی تھی۔

حصول اقتدار کے لئے سیاسی جماعتوں کے مابین مقابلہ آہستہ آہستہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پاناما ریفرنس میں سابق صدر میاں نوازشریف کی تاحیات نا اہلی، مسلم لیگ ن کے مرکزی قائدین کے خلاف نیب کی پکڑ اور نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی تشویش ناک صورتحال کے باعث مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم میں تاخیر ہو رہی ہے، جس سے ان کی انتخابی مہم متاثر ہو سکتی ہے۔

25جولائی کا انتخابی معرکہ کپتان کے لئے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ایک طرف تو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان عام انتخابات کو پاکستان میں تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کا ایک موقعہ قراردے رہے ہیں تو دوسری جانب وہ یہ بھی اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ ان کی قیادت میں عام انتخابات کا معرکہ ان کی سیاسی تاریخ کا آخری معرکہ ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ ناکامی کی صورت میں انیس سو تیئیس تک پارٹی کو منظم رکھنا ان کے لیے یقینی طور پر مشکل ترین ہوگا۔ کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی جانب سے ایک مہم بھی چلائی گئی جس میں کارکنان کو کہا گیا کہ تریسٹھ سالہ عمران خان انتخابات جیتنے کے لیے متحرک ہیں اس لیے کارکنان کے لیے لازمی ہیں کہ وہ گھروں سے نکل آئیں اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔

ملک پرتین مرتبہ حکومت کرنے والی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی انتخابی میدان میں ہے۔ کہا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ لیکن انہوں نے جنوبی اور وسطی پنجاب سے 204 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرکے سیاسی میدان میں اپنے ان ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ یہ انتخابات محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز کریں گے۔ بلاول بھٹو لاڑکانہ اور لیاری سے بیک وقت انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ کہا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو لیاری سے جیت کر اپنی نشست چھوڑیں گے تو آصفہ بھٹو ضمنی الیکشن کے دوران پیپلز پارٹی کا امیدوار بنایا جائے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ جو کہ گزشتہ تیس برسوں میں محض ایک اشارے پر روشنیوں کے شہر کی روشنیاں گل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی اس مرتبہ بہت ہی کمزور پچ پر میدان میں اتر رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ متحدہ کے اندر بنائے گئی کئی دھڑے دعویدار ہیں کہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔ بانی متحدہ کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی قیادت سے ہٹایا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار پی آئی بی گروپ کی ناکامی کے باوجود اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ لیکن انتخابات کی سیٹی بجتے ہی وہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں سے میدان میں آگئے ہیں۔ کیوں کہ عدالت نے ان سے پتنگ کا انتخابی نشان بھی چھین لیا ہے اس لیے ان کے لیے مجبوری ہے کہ وہ پتنگ کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے متحدہ کے رہنما عامرخان کی بیعت کرلیں۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار غیرمشروط طور پر بہادرآباد پہنچ گئے۔

سندھ میں جہاں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے امیدوار میدان میں ہیں وہیں پر اے این پی، متحدہ مجلس عمل، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، ن لیگ سمیت پی پی پی مخالف جماعتوں کا اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) بھی اپنے جاہ و جلال کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔

اس صورتحال میں بڑی سیاسی جماعتوں کے لئے عام انتخابات کسی امتحان سے کم نہیں۔ انتخابی نتائج میں ابھی ایک مہینہ باقی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کے ہمراہ عوام کی عدالت میں پیش ہورہی ہیں۔ کہیں پر ان کا استقبال پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے تو کہیں گو گو کے نعروں سے ہو رہا ہے۔ ووٹوں کے ڈبے کس کے بھرے نکلیں گے اور کون خالی ڈبوں کے ساتھ آنسوں بہائے گا یہ تو 26 جولائی کو ہی پتہ چل سکتا ہے۔

انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے بنائی گئی نگراں حکومت نے انتخابات کو فوجی جوانوں کی نگرانی میں کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ بقول ان کے وہ کسی بھی بلیم گیم کا حصہ نہ بن سکیں۔ فوج ایک دن قبل ہی پولنگ اسٹیشنز کا نظام سنبھال لیں گی۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے رٹرننگ افران کی ٹریننگ کرا کے ان کو انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے گر سکھا دیے ہیں۔

ملک میں جمہوری عمل میں بار بار مارشل لاؤں کی مداخلت کے بعد یہ خوش آئند بات ہے کہ ہماری دو منتخب پارلیمانوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ گوکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک وزیراعظم کی قربانی بھی دینی پڑی یا پھر مسلم لیگ ن کو تو اپنی قیادت کی ہی قربانی دینی پڑی تاہم دونوں جماعتوں کے اقتدار کی مدت پوری ہونے کے باعث جمہوری عمل نے دس سال مکمل کرلیے۔ اور دس سالوں کی جمہوریت نے ہمارے عوام میں یہ شعور بیدار کیا ہے کہ وہ وڈیروں اور با اثر افراد کے سامنے سوال کھڑے کر رہے ہیں۔

منتخب نمائندوں سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ گزشتہ پانچ برس کہاں تھے؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ جمہوری پہیہ چلتا رہا تو آئندہ 2023 کے عام انتخابات میں سیاسی جماعتیں مجبور ہوں گی کہ وہ روایتی وڈیروں کے بجائے عام آدمی اور مڈل کلاس کو ٹکٹ جاری کریں گی۔ وہ یہ کام بھلے شوق میں نہ کریں لیکن وہ مجبورا ایسا کریں گی۔ کیوں کہ وہ اچھی طرح جان چکی ہوں گی کہ مڈل کلاس کی غیرموجودگی میں وہ انتخابات کا معرکہ جیت نہیں سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).