آفس آفس کی کہانی ۔ سرخیاں لگانے والی


ہماری برانچ میں ایک اور لڑکا صفوان(فرضی نام ) تھا، سفید انڈے جیسا، گورنمٹ کالج سے ایم اکنامکس کیا ہوا تھا، مگر وہ مقابلے کے امتحان سے نہیں بلکہ کیش آفیسر کے طور پر ڈائریکٹ بھرتی ہوا تھا۔ کسی با اثرگھرانے کا تھا۔ وہ ہمیں پہلے پہل کلاس کانشئیس لگا کیونکہ وہ ہم سے ذیادہ مکس اپ نہیں ہو تا تھا۔ اس پر بھی شروع شروع میں ہمیں میڈم کا جاسوس ہونے کا شک ہو تا تھا، کیونکہ نامعلوم ذرائع سے یہ خبر پھیلی ہو ئی تھی کہ میڈم کے ساتھ ان کے فیملی ٹرمز ہیں۔ مگر بعد میں ہمیں پتہ چلا وہ انتہائی کم گو اور شرمیلا سا انسا ن ہے اس لئے نہ صرف اسے مغرور سمجھنا چھوڑ دیا بلکہ ہم نے اس کی خاموشی اور سنجیدگی کو بھی توڑ دیا بلکہ بعد میں وہ ہم جیسی حماقتیں کر نے لگ گیا۔

ہماری برانچ میں ٹھیکداروں کے اکاؤنٹس ہو تے تھے اور ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ صفوان بھی عہدے میں مجھ سے جو نئیر تھا، مگر میڈم کی کرم فرمائی کی وجہ سے وہ بھی سنئیر آفیسرز والے کام کرتا تھا۔ میں نے چونکہ گریڈ 3 میں سلیکٹ ہو تے ہی بنکنگ کا ڈپلومہ فورا ہی کر لیا تھا تو یہ صرف ہمارے بنک کی پالیسی تھی کہ ڈپلومہ ہولڈرز کی باقی بنکوں کی طرح صرف تنخواہ میں اضافہ نہیں کرتے تھے بلکہ اگلے گریڈ میں پرموٹ ہی کر دیا کرتے تھے۔ چناچہ بنک میں آتے ہی ڈپلومہ کر کے میں گریڈ 2 میں ترقی بھی پا چکی تھی، یعنی اس برانچ میں ماجدہ اور زاہد کے بعد صرف میں گریڈ 2 تھی، باقی سب کیش آفیسرز یا گریڈ 3 مگر اس قابلیت کے باوجود میڈم نے مجھے کاونٹر کے پیچھے تاڑ رکھا تھا اور حکم تھا کہ مجھے کوئی سنئیر ز والا کام نہ دیا جائے۔

وہ کام صفوان اور ہاشم کے سپردکیے جاتے تھے۔ تو صفوان ٹھیکداروں کے ڈرافٹ وغیرہ بنا کرتا تھا۔ تو اس دن میں نے اپنے کاؤنٹر کے حجرے سے جھانکتے ہو ئے صفوان کو کہا ذرا مجھے“ کالا موٹا مارکر“ دینا۔ میڈم کا میز ہم سے چند فٹ کے فاصلے پر ہوا کرتا تھا، اور باقی ایک ہال نما کمرے میں بغیر کیبن کے سب کی میزیں ساتھ ساتھ لگی ہو تی تھیں، میری یہ کہنے کی دیر تھی کہ صفوان کا گورا رنگ ہنسی ضبط کرنے کی وجہ سے ٹماٹر کی طرح سرخ ہو گیا، اور جب وہ کنڑول کرنے کے قابل نہ رہا تو وہ سامنے بیٹھے کلائنٹ سے نظریں ملائے بغیر اندر سٹرانگ روم کی طرف بھاگ گیا۔ اور جب میں نے اس کے سامنے بیٹھے کلائنٹ پر غور فرمایا تو میں دھک سے رہ گئی کیونکہ وہاں ایک انتہائی موٹا سا کالا ٹھیکدار بیٹھا مجھے غصے سے گھور رہا تھا۔

صفوان نے میری شرارتی طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے اس فقرے کو جان بوجھ کے کی گئی شرارت سمجھا حالانکہ میں بالکل معصوم تھی جیسے ہی مجھے معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا میں نے خود کو ایک سیکنڈ میں کیش کاؤنٹر کے پیچھے گم کر دیا اور پہلی دفعہ مجھے اس ڈبے کے تحفظ کا احساس ہوا۔ دوسری طرف صفوان بہت دیر تک باہر نہیں نکلا تو، ہاشم جلدی سے اپنے بالوں کی لٹ سلجھاتا ہوا، جو اس کم عمری میں ہی سفید ہو نا شروع ہو چکی تھی، ٹھیکدار کو ڈیل کر نے پہنچ گیا۔ میڈم اپنی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے آنکھ کا اشارہ کر تی تھیں اور سب کسی روبوٹ کی طرح متحرک یا ساکت ہو جاتے تھے تو شاید ہاشم کو وہ اشارہ ہو چکا تھا۔

ابرو کے اٹھانے رکھنے میں ایسا کمال تھا کہ اس صدی میں پیدا ہو تیں تو ”ریپ آف دی لاک“ کی ہیروئن ہو سکتی تھیں۔ ایک صبح بنک آتے ہو ئے میرے ڈرائیور نے گاڑی کا ایکسیڈنٹ کر دیا، چونکہ حادثہ بالکل برانچ کے باہر ہوا تھا، اورڈرائیور وہیں لڑنے وغیرہ لگ گیا تو میں گھبرائی ہو ئی برانچ میں بھاگی آئی، یہ میری زندگی کا پہلا ایکسیڈنٹ تھا اور اس گھبراہٹ میں اپنے اور میڈم کے درمیان کا فرق بھول کر وقتی طور پر اپنے آپ کو انسان تصور کرتے ہو ئے، ایکسیڈنٹ کا حال سنانے لگی اور ڈرائیور کی مدد کی اپیل بھی گوش گزار کی۔ میڈم سپاٹ آنکھوں سے مجھے گھورتی رہیں اور ساتھ ساتھ کن انکھیوں سے اپنے شوہر کا بھی جائزہ لیتی رہیں۔ ہاشم، دل میں میرے لئے کچھ نرم جذبات رکھتا تھا، مجھے اتنا پریشان دیکھ کرمیرے ڈرائیور کی مدد کر نے کے لئے ایک دم باہر کو بھاگنے لگا مگر میں اتنی دیر میں میڈم کا ٹھنڈا ٹھار رد عمل دیکھ کر زمینی حقائق میں لوٹ چکی تھی۔

مڑ کر ہاشم کو دیکھا تو وہ بھی جس سپیڈ سے اٹھا تھا، اتنی ہی پھرتی سے واپس بھی بیٹھ چکا تھا۔ باقی سب نے تو میز سے ہلنے کی بھی زحمت نہ کی تھی۔ مجھے اپنی بے بسی پر بڑا رونا آیا، مگر میں نے سیٹ پر بیٹھتے ہی ہاشم کو پر چی پکڑائی جس میں انتہائی غصے سے اس سے پو چھا کہ: ڈرائیور کی مدد کے لئے باہر کیوں نہیں گئے تھے؟ اس کی بے بسی کا اظہا ر موٹے کالے مارکر سے لکھا ”میڈم“ لفظ میں تھا۔ میں صرف غصے سے اسے گھور کے رہ گئی۔ اس کے بعد اس نے آزادی کے لمحات میں سب کو چیخ چیخ کر بتایا کہ میڈم نے مجھے بہت بری طرح گھورا تھا، جس کا مطلب تھا خبردار دروازے سے باہر قدم بھی نکالا۔ باقی سب لڑکے اسے یہ کہہ کر چھیڑتے رہے کہ اتنا تو سب کو ہی پتہ تھا، تو تم ہلے ہی کیوں؟ تو وہ دن ہاشم کا برا دن تھا، ہم نے چھیڑ چھیڑ کر اس کے بالوں میں اس دن مذید سفیدی کا اضافہ کر دیا تھا۔ میڈم کے اشاروں کو سمجھنا بھی ایک باقاعدہ سائنس تھی، جس میں میں تو کم از کم اس برانچ میں گزارے گئے آخری دن تک ماہر نہ ہو سکی تھی۔

ایک دن حسبِ معمول ہم سب سانس روکے سر جھکائے اپنے اپنے لیجرز میں گھسے ہو ئے تھے، پبلک ڈیلنگ ٹائم تھا، ایک ادھیڑ عمر کی عورت جس نے عام سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، شکل سے غربت ٹپک رہی تھی، بنک میں داخل ہوئی، ہمارے لئے، ہمارے سے مراد ہم آفیسرز کے لئے سب کلائنٹس برا بر ہو تے تھے۔ معصومیت کے اس دور میں ہمارے نزدیک امیری اور غریبی کی بنیاد پر پروٹوکول دینے یا نہ دینے کا تصور مو جو د نہیں تھا ( ویسے میرے اندر تو وہ چیز آج تک نہیں پیدا ہو سکی )۔ مگراس وقت، اس عورت کا مسئلہ ہمارے اختیار سے باہر تھا، شاید اس کے چیک کے لئے میڈم کی منظوری چاہیے تھی۔ اور میڈم حسب معمول ”لک بزی ڈو نتھنگ“ کی عملی تصویر بنی بیٹھی تھیں۔ برانچ میں بھی وہ کم کم ہی آیا کرتی تھیں، آتیں بھی تو اپنے شوہر کو سامنے سجا کر بٹھاتیں اور بس تھوڑی ہی دیر میں چلی بھی جاتیں۔

سعدیہ، جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا، پستہ قد کی گوری چٹی چپ چپ سی، مگر جب بولتی تو اس کے جملوں میں چھپے گہرے طنز اگلے کو مارنے کے لئے کافی ہو تے، وہ عورت بار بار اس کے پاس جا رہی تھی، سعدیہ، شاید میڈم کے پاس اس عورت کا چیک سیکنڈ سائن کے لئے لے کر جاتی تھی، اور میڈم اسے دھتکار ( بغیر کسی مبالغہ کے میڈم کا سلوک اس بن باپ کی لڑکی کے ساتھ ایسا ہی تھا۔ بعد میں خدا نے اس کو اس کے صبر کا ایسا میٹھا پھل دیا کہ آج وہ لاکھوں میں کھیل رہی ہے)۔ مگر اسوقت گریڈ تھری آفیسر ہونے کے باوجود میڈم اس سے معمولی کام لیا کرتی تھیں، جیسے چائے بنوانا، کھانا لگوانا۔ اور ا سطرح کے سارے چپڑاسی والے کام۔ اور آج اس عورت کی پیمنٹ تھی کہ ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تو وہ تنگ آکر سعدیہ کے پاس گئی اور بڑی دبنگ آواز میں بولی:

”ہم نے بھی اپنے زمانے میں بڑے سرخیاں لگا لگا کے لٹے ہو ئے ہیں۔ “ ہم سب نے چونک کر سعدیہ کی لال سرخی اور اس عورت کی فرسٹریشن کو دیکھا۔ سعدیہ کا رنگ اڑ گیا اور میڈم جن کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا، وہ اطمینان سے اپنے شوہر کے ساتھ چائے کی چسکیاں لینے میں مصروف تھیں کیونکہ سعدیہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس بے عزتی کا ڈیو کریڈٹ میڈم تک پہنچا آتی۔ اور ہماری ہنسی تھی کہ پھر فواروں کی صورت منہ میں بھر گئی، میڈم کو دیکھ کر نہ اگلی جائے نہ نگلی پھر بہت دنوں تک سعدیہ کی سرخی زیرِ غور رہی۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).