مجھے زیارت جا کر شدید مایوسی ہوئی


چھٹیوں پہ کوئٹہ آئے کئی دن گزرے۔ بہت آرام ہو چکا۔ سوشل میڈیا پہ جو گندگی اور طوفان بد تمیزی امڈا ہوا ہے آجکل، اسے دیکھ کے کئی بار سوچا کہ اپنے حلقہء احباب کی چھٹائی ہی کر ڈالوں۔ مگر پھر ڈر سا لگا کہ مٹھی بھر دانے بھی نہ رہ جائیں گے لہٰذا سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ سوچا اب تک زیارت بھی نہ دیکھ سکی ہوں۔ لوگ ایسے سوال کرتے ہیں جیسے میرا ایمان لانا ابھی باقی ہو۔ سوچا اسی کو پورا کر لیا جائے اور زیارت جانے کی ٹھانی۔

ہفتے کی صبح زور و شور سے تیاری کر کے سفر شروع کیا گیا۔ وہی ہوا جو ہر بار ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہمیں ڈیڑھ گھنٹے میں زیارت ہونا تھا۔ ان کے مطابق بس یہیں تو ہے زیارت، کوئٹہ کے ساتھ۔ نجانے کیوں یہ خاص قسم کی برادری ہر سو ہی ٹکرا جاتی ہے۔ ہم نے خاموشی سے حضرت گوگل پہ اکتفا کیا اور سفر شروع کیا۔ سہانا سفر، اچھی سڑک، بے خوفی سے بھر پور۔ اور کچلاک آ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی پہلی نظر مذبح خانے پر پڑی جہاں نظر تو شاندار گوشت ہی آیا مگر ایک عجیب سا خوف دبے پاؤں اندر سرائیت کر گیا۔ تیس سے چالیس جانور لٹکے ہوئے تھے۔ ایسا منظر تو کوئٹہ میں بھی نہ دکھا تھا۔ خوف سے جلدی سے نقاب کر لیا اور فضول خیالات کو جھٹکا۔ خیر ادھر سے بخیر و عافیت نکلے اور چوڑی سڑک پہ آئے۔

پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ بلوچستان کو اللہ نے عجیب کورے حسن سے نواز ا ہے مگر شاید انسان کا چھڑکاؤ ادھر ہونے سے رہ گیا۔ دور دور تلک تاحد نگاہ خالی زمین۔ بھوری بھوری سرمئی سرمئی۔ جہاں صرف ہوا اٹھکیلیاں کرتی نظر آتی ہے۔ کچلاک سے نکلتے ہی سوچا کہ چلو گھنٹے بھر کا سفر باقی ہے۔ مگر جی پی ایس نے اس بات کو رد کر دیا۔ سوچا چلو کوئی بات نہیں، اب نکل تو پڑے ہی ہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ پہاڑوں کو دیکھ کے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پتہ نہیں اتنے مشہور مقامات کے بورڈز کیوں نہیں لگائے گئے۔ ہمیں تو گوگل ہی راہ دکھا رہا تھا۔

عجیب سا خیال آیا کہ قائد اعظم کے زمانے میں تو گوگل نہیں تھا۔ انہیں کتنی مشکل درپیش ہوتی ہو گی۔ زیارت کی سڑک پہ چڑھے تو کئی کلومیٹر تک ڈرتے ہی رہے کہ غلط سڑک تو نہیں ہے۔ سوچا اس زمانے میں کتنی تکلیف ہوتی ہو گی۔ ذہن میں تھا کہ مشہور مقام ہے۔ مری کی طرح ہو گا مگر یہ کیا۔ سگنل فوراً ہی چلے گئے۔ اتنی بھی ترقی نہ ہو سکی اب تک یہاں، افسوس سا ہوا۔ اسی اثناء میں بیٹی نے ٹریول سکنس کا کہا تو گاڑی روک لی۔ پھر خیال نے تنگ کیا کہ ہمارے بیمار قائد پہ کیا افتاد گزرتی ہو گی۔ کیا وہ واقعی اپنی مرضی سے وہاں رہتے تھے؟ دل مان نہیں رہا تھا۔ جبکہ پڑھایا یہ جاتا ہے کہ زیارت چھٹیاں گزارنے کے لیے قائداعظم کا پسندیدہ مقام تھا۔

رستے میں گاڑی روک کے چیری لی اور تبھی چیری خریدنے کے آداب سے بھی واقف ہوئے جن سے اب تک عاری تھے۔ بھئی کیا دیدہ دلیری سے پھل فروش جھوٹ بولتے پائے گئے۔ کمال تھا۔ کس قدر زرخیز زمین سے نوازا ہے اللہ نے بلوچستان کو۔ جہاں سے زیارت کو جانے والی سڑک شروع ہوتی ہے اگر ادھر سے لے کر صرف زیارت تک بھی باغات پھیلا دیے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کسی کا محتاج نہیں رہے گا۔ مگر ابھی باغات کا سلسلہ زیارت سے صرف ایک گھنٹہ آگے تک ہی ہے۔ خیر جناب صنوبر کے جنگلات بھی شروع ہو گئے۔

کہیں کہیں زندگی کے آثار نظر آتے تو خوشی سی ہوتی۔ مگر لوگوں کی فراغت دیکھ کے کوفت بھی بہت ہوئی۔ کراچی کے پاپوش نگر میں تخت پہ فارغ بیٹھے ڈینگیں مارتے لا تعداد لوگ یاد آ گئے۔ رستے میں خاصے بھاری بھرکم بورڈز دکھے این جی اوز کے۔ خیر جناب، تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہم میس پہنچ گئے، جہاں تازہ دم ہوئے اور سوچا کہ اب زیارت ریذیڈنسی چلا جائے۔ وہاں پہنچ کے دیکھا کے لوگ دیوانہ وار فوٹوگرافی کر رہے ہیں مگر یہ کیا۔ ہمیں کیمرا لے جانے سے روک دیا گیا۔ ہم نے کہا کہ موبائل فون میں نیٹ ہوتا ہے۔ اس سے تصاویر کھینچنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے نا کہ اس سے۔ مگر رٹے رٹائے اصول۔ اندر داخل ہو کے پہلے تو ہم نے اپنے اندر خالی پن سا محسوس کیا۔ نجانے کیوں کوئی جذبہ نا ابھر سکا۔ اندر عجیب سناٹا سا تھا اور تب ہم نے فیس بک پہ اسٹیٹس ڈالا کہ At Ziarat اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ افسوس سا ہوا۔ اندر جا کے بتایا گیا کہ تباہ ہونے کے بعد سب ویسے ہی بنایا گیا ہے۔ شاید اسی لیے بہت زیادہ انسیت نہیں ہو رہی تھی ہمیں۔

پھر بھی سب دیکھا اور سوچا کہ ادھر ہمارے قائد بیٹھتے ہوں گے۔ کھانا ادھر کھاتے ہوں گے۔ دعا پڑھی۔ میوزیم دیکھ کے حیرانی ہوئی کہ کتنے ہی لوگ آتے جاتے رہے یہاں۔ اسی اثناء میں بادل آنے لگے اور گرمی کی شدت کچھ کم ہوئی۔ دلفریب ہوا چلنے لگی۔ سوچا فیملی کے لیے کچھ سووینئر لے لیے جائیں۔ ایک کھنڈر نما کھوکھے میں گئے جس میں بمشکل کچھ ٹی شرٹ پڑی تھیں اور اکا دکا فریم۔ ہم نے کہا کہ یہ کیا مذاق ہے تو جواب ملا کہ ختم ہو گیا ہے سب۔ ہم نے سوچا کہ یہاں تک آ گئے ہیں تو زیارت پارک نامی جگہ بھی دیکھ لی جائے۔

بڑی کٹھن سڑک سے گزر کے وہاں تک پہنچے۔ ایک شرمیلا سا ایف سی کا جوان ملا۔ اس سے دریافت کیا کہ زیارت پارک کہاں ہے؟ اس نے شرماتے ہوئے اور قدرے شرمندہ ہو کے کہا کہ یہی ہے جو ہے۔ وہاں اس موڑ پہ جا کے تم لوگ بھی بیٹھ جاؤ جیسے سب بیٹھے ہیں۔ خیر جناب وہ ایک حسین اور دلکش موڑ تھا جہاں سے حسین وادی دکھتی تھی۔ مگر سب حکومت کی بے حسی کا شکار۔ اتنا مشہور سیاحی مقام اور نظر اندازی کا شکار ہے، جہاں سے بھرپور منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ زیارت کو سب سے زیادہ نقصان افغان مہاجرین نے پہنچایا ہے جن کے جانور ساری ہریالی کھا گئے۔

ہمارے فیس بک اسٹییٹس پہ لوگوں کے کمنٹس آنے لگے کہ ہم یہاں آکے بہت روئے۔ ہم نے وجہ دریافت کی تو کسی نے بتایا کہ اصلی گھر تو اڑا دیا گیا۔ کسی نے کہا کہ احتجاجاً روئے کہ وہاں پر ایک زمانے میں گورنر ہاؤس بنانے پہ غور ہو رہا تھا۔ مگر قارئین ہمارا ذہن وہیں اٹکا رہا کہ پہلے گورنر جنرل آف پاکستان۔ انہیں یہاں سزا کے طور پہ لایا جاتا تھا یا آرام کے لیے۔ یہاں تک پہنچنے میں کس قدر اذیت ہوتی ہو گی۔ خاص کر بیماری کی حالت میں۔ ہمارے پاکستان کے بانی۔ شاید ہم ہی بہت بے حس ہیں جو عما رت کی تباہی اور تعمیری عمل پہ دھیان ہی نہ جا پایا۔ رونا نہیں آیا۔ آخر کیوں وہ ادھر تھے۔ کیا مقصد انہیں سیاست اور حالات سے دور رکھنا تھا؟

ہمارے پاکستان کے بانی۔ اسی پاکستان کے بانی جہاں آجکل سیاست کے نام پہ بے ہودگی ناچ رہی ہے۔ لوگ پاگل کتوں کی طرح ایک دوسرے کو، رشتے داریوں کو، دوستیوں کو نوچ کھسوٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو قائل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ آپ جناح جیسی شخصیت تو بنائیں، زبان تو لائیں۔ آپ قائل کریں گے تو کس کو۔ پڑھے لکھے افراد نے قائل ہونا نہیں ہے اور جو رستے بھر لوگ فارغ بیٹھے ہمیں نظر آ ئے انہیں قائل کرنا نا ممکن ہے۔ یا تو آپ بڑی سی داڑھی اور پگڑی باندھ لیں۔ جناب کون کسے قائل کرے گا۔ سب اپنی دھن میں مست ہیں۔ پہلے اپنا قبلہ کعبہ تو سیدھا کر لیں۔

ایک کمرے میں بیٹھ کے فیس بک پہ تحریکیں چلائی جاتیں تو آج کو پاکستان میں نہ بیٹھے ہوتے۔ سب کے دماغ کسی ایک ڈگر پہ ناچ رہے ہیں۔ کوئی اچھا ہو کے بھی ایک غلطی کر بیٹھے تو وہ چور ہے اور کوئی چور ہو تے ساتھے بھی ایک اچھا لفظ بول دے تو مسیحا ہے۔ لوگوں کے مائنڈ سیٹ ہیں جو کسی مردہ جسم کی طرح اس حد تک اکڑ چکے ہیں کہ ان میں جھکاؤ ممکن نہیں۔ یہ بس لوٹ کھسوٹ، نوچ کھسوٹ اور ووٹ کھسوٹ ہے۔
واپسی کا سفر بوجھل قدموں سے شروع کیا اور واپسی کا سفر تو لمبا ہی ہوا کرتا ہے۔ تقریباً چار گھنٹے میں واپس کوئٹہ پہنچے۔ پاکستان پائندہ باد، قائد اعظم زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).