محکمہ زراعت والوں سے ایک درخواست


انسان کچھ کہنا چاہے اور نہ کہہ سکے اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوگی؟  مجھے لگتا ہے کہ ہم عہدِ سقراط میں جی رہے ہیں۔ فکرِ آزاد اور مخالف نظریات والوں کو زہر کا پیالہ پینے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ جبکہ حقیقی چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو تحفظ فراہم کیا جا رہاے۔ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق اور قومی وقار مجروح ہوچکا۔ ہمیں سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں بھائی۔ مسندِ اقتدار پر جس کو مرضی بٹھا دیں، اپنے منصوبوں کو جیسے مرضی عملہ جامہ پہنائیں لیکن کسی کے ساتھ زیادتی نہ کریں۔ کسی کو محبِ وطن ہونے کی سزا نہ دیں۔ کسی کو اتنا مجبور نہ کریں وہ قوم، ملک، سلطنت اور پاسبانِ سلطنت سے نفرت کرنے لگے۔ یقین مانیے جب کسی کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے یا ملک کا نقصان ہوتا ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے، روح کانپ اٹھتی ہے۔

میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ میں نہیں کہوں گا۔ میں جو لکھنا چاہتا ہوں وہ نہیں لکھوں گا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ مجھے اپنی ذات، اپنے گھر بار اور اپنے اہل و عیال سے زیادہ حق کی توصیف اور باطل کی حوصلہ شکنی سے پیار ہے۔ اس لئے باطل کو سمجھ لینا چاہیے کہ میرے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ انشااللہ آئے گی ۔

سوچتا ہوں یہ شعور کس بلا کا نام ہے؟ ہمارے دانشور کہہ رہے ہیں پاکستانیوں کو شعور آ گیا ہے۔ وہ اپنے حق کی بات کرنے لگے ہیں۔ سوال جواب کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ شعور ہے کہ آپ اپنے بزرگوں، اپنے معززین اور اپنے رہبروں کا گریبان پکڑنے لگیں تو معذرت مجھے یہ شعور پسند نہیں۔ اگر شعور یہ ہے کہ معاشرے کو سیاسی پولرائیزیشن کا مریض بنا دیا جائے۔ بھائی کو بھائی اور بیٹے کو سیاسی نظریات پر ماں سے لڑا دیا جائے تو معذرت کے ساتھ ایک اور نفرین۔ اگر شعور یہ ہے کہ شراب کو شہد، بد تمیزی کو تہذیب، مہمانوں کو پھٹیچر، لوٹوں کو الیکٹیبلز اور سجدۂ کفر کو بوسۂ عقیدت کہہ کر جائز قرار دیا جائے تو تین حرف۔

گزشتہ چار پانچ سال سے ایک سیاسی جماعت کے حق میں عوامی ذہن سازی کے لئے جس طرح سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کیا گیا ہے دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور آزادیٔ اظہار رائے والے ملک میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ کیا امریکی عوام سوشل میڈیا اور جلسے جلوسوں میں امریکی صدر کو گالیاں دیتے ہیں؟ اس کے نام سے جھوٹی تصویریں بنا کر اسکو ڈی فیم کر تے ہیں؟ ٹرمپ کے خلاف بغیرکسی ثبوت کوئی الزام لگاتے ہیں؟ یا ٹرمپ پر مقدمہ بازی کرتے ہیں؟ آپ سعودی عرب چلے جائیں جہاں بادشاہت ہے۔ آپ یورپ چلے جائیں، برطانیہ چلے جائیں، شاہی خاندان بارے پوسٹ لگائیں، ان پر بہتان لگائیں، ان کو گالیاں دیں۔ پھر میں دیکھتا ہوں آپ کیسے واپس آتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ بھارت چلے جائیں۔ مودی کے بارے میں غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی پوسٹ لگائیں۔ پوسٹ بھی غائب ہو جائے گی اور پوسٹ لگانے والا بھی۔

پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کے علاوہ دنیا  بھر کے ممالک میں عوام الیکشن کے دنوں کے علاوہ بیچ کے دورانیہ میں غیر سیاسی رہتے ہیں۔ ایک دفعہ جو حکمران منتخب کر لیے پھر ان کو کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اور جو قوانین وہ بنائیں ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں سیاسی گرماگرمی اور الیکشن کا ماحول سال کے 365 دن اور دن کے چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں ٹیلی ویژن کی پرائم ٹائم نشریات میں تفریح اور اصلاحی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں پرائم ٹائم نشریات میں عوام کو اپنے حکمرانوں کو گالیاں دینے اور انکی چھترول کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ اپنے حکمران کو گالیاں دینے، ان کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے، ان پر بہتان لگانے، جھوٹے مقدمات کرنے اور انکے خاندانوں کو ذلیل کرنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں ۔

ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے ہر اس بندے کو جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے رپورٹر اور اینکر بنا دیا ہے اور اب یہ اینکرز الیکشن کے دنوں میں اپنے موبائل فون سے خوب اینکری جھاڑ رہے ہیں۔ ہمارے دانشور کہتے ہیں یہ اچھی تبدیلی ہے کہ عوام اپنے منتخب کردہ نمائندگان سے انکی پانچ سالہ کارکردگی بارے سوال کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ان نام نہاد اینکرز کی بدتمیزی، غیر اخلاقی رویے، اور زبردستی کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟  جہاں ملک بھر میں ان نام نہاد اینکرز کی آزادی اظہارِ رائے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ وہیں دوسری طرف سابقہ حکمران پارٹی کے امیدوارن، حامیوں اور ان کے نظریات کے حامی لوگوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان کے مساوی حقوق اور آزادیٔ اظہارِ رائے سلب کی جا رہی ہے۔

آخر میں ایک درخواست محکمہ زراعت والوں سے کرنا چاہوں گا۔ سر آپ کی طرف سے جاری کردہ کیڑے مار ادویات سے کافی نقصان ہو گیا ہے۔ چتکبری اور گلابی سنڈی تو مری نہیں البتہ فصل تباہ ہو گئی ہے۔ اور اگر آپ اسی طرح کسانوں پر محنت کرتے رہیں گے تو نسل بھی تباہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے گزارش ہے کہ ہتھ ہولا رکھو!۔ شکریہ

بہادر شاہ ظفر شاید اپنے تخیل میں 2018 کے نئے پاکستان میں کھوئے ہوئے تھے جو انہوں نے یہ اشعار لکھ دیے۔

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبرو قرار

بیقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).