لاہور کے چند گھر – فیض گھر


الیکشن کے موسم میں کسی اور موضوع پر بات کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے پھر چڑیا گھر کی سیر کا تو آپ نے پڑھا اور سناہوگالیکن ہمیں تو ایسے ہی موسم میں عجائب گھروں کاخیال آیا۔ ایسا کیوں؟ یہ بات پھرکبھی، فی الحال معروف شخصیات کےگھر تلاش کرتے ہیں۔ گوگل پر سرچ کیاتو دو گھر تو بالکل ہمارے پڑوس میں نکل آئے۔ پہلا: میوزیم ”فیض گھر“بائیں بازو کے معروف شاعر، مصنف اور اردو زبان کے نامور لکھاری فیض احمد فیض کاتھا۔

میں نے اپنے ہم دم دیرینہ محمد حسین صاحب کو بمشکل تمام اپنے ساتھ جانے پر آمادہ کیا۔ گاڑی میں بیٹھے ماڈل ٹاون کا رُخ کیا۔ چند منٹوں میں پہنچ گئے۔ 126 Fڈھونڈنے میں بھی ہمیں دیر نہیں لگی۔ ڈرائیور نے گیٹ کے ساتھ ہی گاڑی روکی۔ میں نے اُترکر گھنٹی بجائی، گھنٹی بجاتے ہی معاًخیال آیا کہ بلاک اور مکان نمبر تو وہی لیکن نہ کوئی بورڈ نہ کوئی تختی۔ خیرگھنٹی بج چکی تھی۔ اندر سے ایک شخص باہر آیا، ہم نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مختصرالفاظ میں پوچھا:“فیض گھر۔ “انھوں نے اگلے گیٹ کی طرف اشارہ کیا، ہم ہدایات کے مطابق وہاں پہنچے۔ نمبر تووہی 126Fہی تھا البتہ یہاں گیٹ کے دونوں اطراف میں اردو اورانگریزی میں ”فیض گھر ”کی باتصویر تختیاں موجود تھیں۔ ہم اطمینان سے اندر داخل ہوئے گیٹ کے پاس لان میں دونوجوان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہم نے سلام کیا، وہ اٹھے، ہاتھ ملایا۔ ہم نے مدعابیان کی۔ ایک ہمیں گائیڈ کرکے عمارت کے اندر لے گیا۔

وہاں ایک خوش اطوار خاتون نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم بلاتاخیرشو کیسوں میں رکھے گئے فیض صاحب کی اسناد، ڈگریاں، خطوط، میڈل، پوسٹل کارڈ جیسےنوادرات کو دیکھنے لگے۔ محمد حسین صاحب ساتھ ساتھ موبائل کےکیمرے سے تصویریں بھی بنانے لگے۔ خاتون اپنے کمرے میں چلی گئی، ہم اپنے کام میں مگن تھے۔ ایک گیلری صرف تصویروں کے لیے خاص ہے باقی تقریباً تمام کمروں میں دیواروں پر تصویریں لگی ہیں۔ علاوہ ازیں فیض صاحب کا لباس، کرسیاں، مفلر، ٹوپی، سگریٹ کیس، اورایش ٹرے جیسی چیزیں بھی اس میوزیم کا حصہ ہیں۔ نیچے مختصر ساحصہ دیکھنے کے بعد ہم اوپر چلے گئے۔ جہاں لائبریری ہے۔

لائبریری میں ایک اور الٹراماڈرن خاتون بیٹھی لیپ ٹاپ پرکام کررہی تھی۔ ایک تومیں انھیں وزیٹر سمجھا پھر کچھ احتیاط کےتقاضے تھے جس کی وجہ سے میں نے اُن سے کوئی بات نہ کی۔ لائبریری میں فیض صاحب کی زیرمطالعہ رہنے والی کتابیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں مارکسزم کے گوشے میں پہنچاکئی کتابیں اٹھاکر دیکھیں، میں فیض صاحب کاکوئی نوٹ، یاحاشیے کی تلاش میں تھا لیکن ایسی کوئی چیزنہیں ملی، معلوم ہوتا ہے فیض صاحب نے کسی کتاب پر کچھ نہیں لکھا۔ میں اسی جستجو میں مگن تھا کہ حسین صاحب نےلائبریری میں بیٹھی خاتون سے بزبان انگریزی بات چیت شروع کی۔ یہ خاتون فیض فاونڈیشن کی پروگرام ڈائریکٹر نکلی۔ پھر میں بھی ان کی گفتگو میں شامل ہوا۔

میں ان سے پوچھا کہ روزانہ کتنے لوگ ویزٹ کرنے آتے ہیں؟ جواب تھا “بس آجاتے ہیں“۔ میرا اگلا سوال تھاکہ فیض صاحب کے خاندان کےلوگ آتے ہیں؟ کہنے لگی:جی، ان کی بیٹی منیزہ ہاشمی فاونڈیشن کی چیرپرسن ہیں۔ فیض صاحب کا ایک نواسایہاں ہارمونیم کی کلاس چلاتا ہے۔ سارہ قریشی کی زبانی ہمیں پتاچلا کہ2009 ء میں فیض فاؤنڈیشن کے تحت قائم کیے گئے اس چھوٹے سے میوزیم کی سرگرمیوں میں آرٹ، کلچر اور اردو زبان کا فروغ بھی شامل ہیں۔ پھر انھوں نے ہمیں وہ ہال بھی دکھایا جس میں موسیقی کی کلاس اور دیگر پروگرامات ہوتے ہیں۔

دن کے تین بجے کا وقت تھا۔ لیکن فیض گھر کے اندرہم دو وزیٹر، دومیزبان خواتین، باہرلان میں دونوجوان تھے، باقی سناٹا تھا ایک کروڑکی آبادی کےحامل پاکستان کے تاریخی، تعلیمی، اورثقافتی شہرلاہور میں ترقی پسند تحریک اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے بانی رکن اورایک معروف اشتراکی شاعرکے گھر کی یہ ویرانی ہمارے لیے حیران کُن تھی۔ اسی حیرت میں ڈوبے ہمیں فیض صاحب کا اپناہی یہ شعر یادآیا:

اوربھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
اس کے ساتھ ہی ہم نے اجازت لی اورآگے کی طرف روانہ ہوگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).