محکمہ زراعت آصف زرداری سے ناراض کیوں ہوا؟ خصوصی تجزیہ


عام انتخابات میں صرف تین ہفتے باقی ہیں لیکن پورا ملک بے یقینی کے بحران سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے گزشتہ برس “آپریشن گیٹ نواز” کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے نہ صرف یہ کہ متبادل منصوبہ بندی پر پوری توجہ نہیں دی بلکہ آئندہ سیاسی منظر کی تفصیلات میں بھی بہت سے امکانات پر غور نہیں کیا گیا۔

28 جولائی 2017 کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی جماعت نے یکے بعد دیگرے متعدد سیاسی سرپرائز دیے ہیں۔ حیران کن طور پر نواز شریف نے اپنی نااہلی اور برطرفی پر نہ صرف یہ کہ پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا بلکہ خم ٹھونک کر اسٹبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ شمالی پنجاب میں چکوال اور انتہائی جنوب میں لودھراں کے ضمنی انتخابات سے معلوم ہو گیا کہ بدعنوانی کے الزامات اور مقدمات سے نواز شریف کی عوامی مقبولیت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ انہیں پاکستان میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اینٹی اسٹبشمنٹ بیانیے پر پنجاب میں پذیرائی مل رہی ہے۔

اس غیر متوقع صورت حال سے گھبرا کر پہلے جنوبی پنجاب محاذ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن چند روز کے اندر اسے تحریک انصاف کے سپرد کرنا پڑا۔ نام نہاد الیکٹ ایبلز کے اتنی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کی طرف ہجرت کرنے سے دو اہم نتائج برامد ہوئے۔

اول: تحریک انصاف نے کرپشن اور روایتی سیاست دانوں کے خلاف جو سیاسی بیانیہ مرتب کیا تھا، اس کی بنیاد بیٹھ گئی۔ سیاسی مکالمے میں تحریک انصاف کی اخلاقی برتری ختم ہو گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ الیکشن لڑنے کی سائنس جاننے والوں کا دفاع کرتے کرتے عمران خان نے بالآخر اعتراف کر لیا کہ وہ تو پہلے روز سے الیکٹ ایبلز کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن ایسے افراد تحریک انصاف میں شامل ہونے پر تیار نہیں تھے۔ گویا تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں کو اگر کسی وقتی مجبوری کا گمان تھا بھی، تو وہ جاتا رہا۔ انہیں بتا دیا گیا کہ آپ کو روز اول سے خانہ پری کے لئے رکھا گیا تھا۔

دوم یہ کہ بڑی تعداد میں تحریک انصاف مین شامل ہونے والے پہلوانوں کی پہلی اور آخری ترجیح اپنے علاقے میں سماجی، معاشی، سیاسی اور انتظامی بالادستی ہوتی ہے۔ اسی مقصد کے لئے وہ پشت ہا پشت سے انتخاب لڑتے آئے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے فیصلوں کے تابع ہوں گے، خود کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ کہ تحریک انصاف کی کشتی میں اتنے الیکٹ ایبل پتھر جمع ہو گئے کہ کشتی بری طرح ڈولنے لگی۔ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر ہر حلقے میں دھڑے بندی سامنے آ گئی۔

تحریک انصاف کی یہ صورت حال دیکھتے ہوئے آزاد امیدواروں کا پتا پھینکا گیا۔ اس میں کسی پرجوش اہل کار کی تیز طبیعت نے پانی پھیر دیا۔ ساز باز کرنے والی امیدواروں کو بغیر کسی مشکل کے طرح طرح کے نشان دیے جا سکتے تھے لیکن محکمہ زراعت میں کسی اولوالعزم کو آئی جے آئی جیسے تاریخی عظمت حاصل کرنے کا شوق تھا۔ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو جیپ کا انتخابی نشان جاری کرنا ایسا ہی تھا جیسے 1977ء میں وزیراعظم بھٹو اور ان کے چاروں وزرائے اعلیٰ کا بلا مقابلہ منتخب ہونا۔ تب انتخابی دھاندلی کے الزام سے پیپلز پارٹی داغدار ہوئی، اب جیپ کے چاروں پہیئے پنکچر نظر آ رہے ہیں۔

اس عرصے میں پیپلز پارٹی نے اپنے پتے بڑی احتیاط سے چلے۔ اس نے نیب کے احتساب کو سندھ سے دور رکھا تاکہ اس کے امیدواروں کی انتخابی مہم متاثر نہ ہو۔ تحریک انصاف کو ایسے اشارے دیے گویا پیپلز پارٹی محمکہ زراعت سے قرض پر کھاد خریدنا چاہتی ہے۔ مئی کے وسط میں انتخابی خشک سالی نیز ووٹوں کے ممکنہ سیلابی ریلے سے بچنے کے لئے انتخاب کے التوا کی فرمائش کی گئی۔ حیران کن طور پر چار سال سے قبل از وقت انتخاب کا مطالبہ کرنے والی تحریک انصاف نے چون و چرا کئے بغیر اس مطالبے پر سر جھکا دیا۔

پرویز خٹک کو بھی مختصر مدت کے لئے انتخابات کے التوا میں کوئی ہرج محسوس نہ ہوا۔ بلوچستان اسمبلی سے بھی مثبت اشارہ مل گیا کیونکہ ملک بھر میں بیس کروڑ کی آبادی اور دس کروڑ ووٹروں میں سے دو لاکھ کے قریب افراد کو اگست میں فریضہ حج ادا کرنا تھا۔ حاجیوں کی واپسی ستمبر کے مہینے میں جاری رہنا تھی اور پھر محرم الحرام کے باعث سیکورٹی کی صورت حال کا عذر انتخابی عمل کی راہ میں ایک جائز رکاوٹ بن سکتا تھا۔ اس کے بعد صرف پیپلز پارٹی کو آہستہ سے سر ہلا کر انتخابات کے التوا کا مطالبہ کرنا تھا۔ افسوس صد افسوس، بدعنوان، نااہل اور ملک دشمن سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے انتخابات کے التوا کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر محمکہ زراعت کا ناراض ہونا سمجھ میں آتا ہے۔

آصف زرداری نے اپنے قریبی ساتھی عبدالستار کی گرفتاری کو کسی کی “ادا” قرار دیا ہے۔ آصف زرداری نے گیارہ برس جیل میں کاٹے ہیں۔ پانچ برس ایوان صدر کی قید بھگتی ہے۔ دسمبر 2011 میں دبئی میں پناہ لینا پڑی تھی۔ جون 2015ء میں انہیں اٹھارہ مہینے کا بن باس ملا تھا۔ وہ “اہل حسن” کی ادائیں ہی نہیں، ناز نخرے بھی سمجھتے ہیں۔ عمران خان تو انتخابی ٹکتوں تقسیم کرنے ہی میں ہانپ گئے ہیں۔

1970 میں شیخ مجیب الرحمن نے ایک صحافی سے کہا تھا، “تم انتخابات ہو لینے دو، میں ایل ایف او کے پرزے اڑا دوں گا”۔ ٹھیک 48 برس بعد سیاسی رہنما 25 جولائی کی شام انتخابی نتائج کے انتطار میں ہیں۔ اس کے بعد کھیل کے اصول و ضوابط تبدیل ہوں یا نہ ہوں، طاقت کا توازن بہرصورت بدل جائے گا۔ اگلے چند روز میں نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کے بعد ایک نئی تصویر سامنے آئے گی۔

گزشتہ بیس روز میں شہباز شریف کی قائدانہ صلاحیت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ زعیم قادری لاہور میں اپنا انتخاب جیت لیں تو یہ بڑی خبر ہو گی۔ چوہدری نثار علی ٹیلی ویژن کی اسکرین سے ٹیکسلا منتقل ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا انتخابی معرکہ سندھ میں ہے اور آصف زرداری لاہور میں بیٹھے ہیں۔ آئندہ بیس روز کے واقعات مستقبل کے پردے میں ہیں لیکن 25 جولائی کی شام نواز شریف، آصف زرداری، فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کی خیر و عافیت معلوم کرنا نہ بھولیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).