’’آپ اپنی کار میں دفتر جایا کریں۔‘‘


’’آپ اپنی کار میں دفتر جایا کریں۔‘‘ میری بیوی تقریباََ ہر روز یہ کہتی تھی۔ میں ہنس کر ٹال دیتا تھا۔

کبھی وہ زیادہ اصرار کرتی تو کہتا، ’’واشنگٹن میں پارکنگ نہیں ملتی۔ پیڈ پارکنگ کا نرخ برداشت سے باہر ہے۔ ٹرین سستی بھی ہے اور اس کا اسٹیشن دفتر کے بالکل سامنے ہے۔‘‘ وہ میری سن لیتی تھی لیکن اگلے دن پھر وہی بات کرتی تھی۔
ہم چھ مہینے سے امریکا میں ہیں۔ اس دوران میری بیوی نے ٹرین کا سفر نہیں کیا تھا۔ پہلے دو مہینے ٹیکسیوں میں پھرے۔ پھر میں نے گاڑی خرید لی۔

ہم واشنگٹن کے قریب ریاست ورجینیا کے ایک قصبے میں رہتے ہیں۔ گھر سے دفتر بیس میل دور ہے۔ ٹرین چالیس منٹ میں منزل تک پہنچا دیتی ہے۔

کل امریکا کا یوم آزادی تھا۔ واشنگٹن میں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ کئی سڑکیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ میرے بچے آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے کی ضد کررہے تھے۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ شام کو ٹرین سے واشنگٹن جائیں گے۔ امریکی اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی ریاست، کسی بھی شہر میں چلے جائیں، آپ کو بے شمار امریکی پرچم دکھائی دیں گے۔ ملبوسات، جوتے، ٹوپیاں، فون کورز، نوٹ بکس، سووینیئرز، ہر چیز امریکی پرچم میں رنگی دکھائی دے گی۔

یوم آزادی ویسے ہی خاص دن ہوتا ہے۔ صبح ہمارے کولیگ انجم ہیرلڈ گل بہت خوبصورت ٹائی باندھ کر دفتر آئے۔ یہ امریکی پرچم کے ڈیزائن والی ٹائی تھی۔ جس نے دیکھا، تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے انجم صاحب کو بتایا کہ شام کو میں بیوی بچوں کو لے کر واشنگٹن آؤں گا۔ آتش بازی دیکھنے کا ارادہ ہے۔ انھوں نے سرسری طور پر کہا، ’’بھابھی اسکارف پہنتی ہیں نا؟‘‘ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے بلکہ کام میں لگ گئے لیکن میں الجھن میں پڑگیا۔ گھر جاکر بیوی کو بھی یہ بات بتائی۔ اسے بھی فکر ہوئی۔ کہنے لگی، ’’یوم آزادی پر ہزاروں امریکی باہر نکلے ہوئے ہوں گے۔ اگر کسی نے بدتمیزی کی تو کیا ہوگا؟‘‘

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ شام ساڑھے چھ بجے ہم گھر سے نکلے اور ٹرین میں بیٹھ کر واشنگٹن پہنچ گئے۔ جاتے ہوئے ٹرین میں رش نہیں تھا۔ شاید بے چین لوگ پہلے ہی نیشنل مال پہنچ چکے تھے۔

واشنگٹن میں دریائے پوٹامک کے کنارے لنکن میمویل سے لے کر کیپٹل ہل یعنی کانگریس بلڈنگ تک کے علاقے کو نیشنل مال کہا جاتا ہے۔ اسے وسیع و عریض پارک سمجھیں جس میں تاحد نظر گھاس بچھی ہوئی ہے، سیکڑوں درخت ہیں، ایک جھیل ہے، درمیان سے کئی سڑکیں گزرتی ہیں، دائیں بائیں متعدد میوزیم ہیں، قدیمی گرجاگھر ہے اور ایک جانب وائٹ ہاؤس بھی ہے۔

کل ایک کونے سے دوسرے کونے تک سات لاکھ افراد وہاں موجود تھے۔ ہزاروں سیاح بھی تھے لیکن دو سو ملکوں کے امیگرنٹ امریکی اپنے وطن سے محبت کا اظہار کررہے تھے۔ ان میں بے شمار مسلمان دکھائی دیے۔ اسکارف والی خواتین نظر آئیں تو ہمارے سانس میں سانس آیا۔ سچ یہ ہے کہ کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی اسکارف کو نہیں دیکھا۔ نو بجے آتش بازی شروع ہوئی جو آدھا گھنٹا جاری رہی۔ آسمان رنگوں اور روشنیوں سے جگمگاتا رہا۔

نیشنل مال کے اطراف پانچ چھ میٹرو اسٹیشن ہیں۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں افراد ایک وقت میں رخصت ہوں گے تو رش تو ہوگا۔ لیکن کسی کو جلدی یا گھبراہٹ نہیں تھی۔ سب منظم انداز سے اپنے اپنے راستوں پر چلتے گئے اور آدھے گھنٹے میں سارا ہجوم چھٹ گیا۔ اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے میں نے بیوی بچوں کو اپنا دفتر دکھایا اور انھوں نے وہاں تصویریں بھی اتاریں۔

ٹرین بھری ہوئی تھی لیکن خوشی قسمتی سے ہم چاروں کو سیٹیں مل گئیں۔ اتفاق سے میرے سامنے ایک خاتون آکر بیٹھ گئیں جن کا چہرہ مجھے اب یاد نہیں۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ان کا لباس حضرت انجم گل کی ٹائی سے بھی مختصر تھا۔ میں نے ٹرین کے سفر میں آنکھیں بند کرکے اونگھنے کی کوشش کی لیکن میری بیوی مسلسل استغفار کے نعرے بلند کرکے مجھے چونکاتی رہی۔

آج صبح میں بیگ اٹھاکر دفتر کے لیے نکلنے لگا تو بیوی نے گاڑی کی چابی مجھے تھماتے ہوئے کہا، ’’آپ اپنی کار میں دفتر جایا کریں۔‘‘

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi