قائد اعظم ثانی کہیں جسے


الیکشن کا جادو سر چڑھ کربول رہا ہے۔ ہر کو ئی اپنی اپنی بولی بول کر اپنا موقف زوروشور سے پیش کر رہاہے۔ جہاں بساط سیاست پرپٹے ہوئے مہروں اورآزمائے ہوئے چہروں کا راستہ روکنے کے لئے لاکھوں دلائل دیے جا رہے ہیں وہیں نئے چہروں کو بھرپورموقع دینے کا مطالبہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جذباتیت سے قطع نظرزمینی حقائق پرنظرڈالی جائے تو یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک قوم کا ہرفرد باشعورنہ ہوجائے تب تک حقوق و فرائض اور اچھے بر ے کی پہچان ناممکن دکھائی دیتی ہے۔

مانا کہ نا خواندگی ام المسا ئل اور جہالت راہ شعورکی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس طرح سیاست دانوں کی مجبوری ہے کہ انہیں مقبول چہروں پرتکیہ کرنا پڑتا ہے اسی طرح مخصوص نکتہ نظرعوام کا ہے۔ اس حق کونہ صرف تسلیم کرنا بلکہ اس کی عزت رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ پڑھا لکھا باشعور طبقہ جو گزشتہ الیکشن کے دوران انتخابی عمل سے دوررہا، دور حاضرمیں ان کا فرض ہے کہ وہ معصوم اورکم علم ہم وطنوں کی ذہنی تربیت کرکے انہیں ساتھ لے کر چلیں۔ یہ ہی باشعور طبقہ انتخابی عمل میں ویٹو پاور کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انتخابی پارٹیوں کو مختصر المیعاد ٹھوس منشور پیش کرنا ہوگا محض سبزباغ دکھانے سے اب کام نہیں چلے گا۔

قدرت خودبھی آجکل عوامی شعور کی بیداری کے لئے بھرپور کوشاں ہے۔ پری مون سون نے دیسی پیرس سمیت ملک کے بیشترعلاقوں میں انتظامی بدنظمی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ نشیبی ہی نہیں پوش علاقے بھی بری طرح زیرآب آچکے ہیں سیلابی پانی کا عفریت مقامی آبادیوں کو نگلنے کے لئے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اگر بروقت ڈیم بن جاتے تو اس دشمنِ جاں پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا تھا بلکہ بآسانی اسے کارآمد بھی بنایا جا سکتا تھا۔

کراچی، کوئٹہ سمیت شمالی علا قہ جات میں امن وامان کامسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ صوبائیت، فرقہ واریت، مذہبی منافرت او رلسانیت نے ملک کوبری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ مادرِ وطن آج بھی کشمیر کے لئے تڑپتی ہے۔ ملک میں خون سستا اورپانی مہنگاہے۔ ننھی کلیوں تک کاجیون محفوظ نہیں۔ پانی کی کمی نے زراعت کو، ایندھن اور بجلی کی کمی نے صنعتی ترقی کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدرمیں کمی اورپٹرول کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے نے اقتصادی ترقی کاپول کھو ل کر رکھ دیا ہے۔

عام آدمی دو وقت کی روٹی، صحت و صفائی اورتعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ پسا ہوا مجبور و مقہور مزدور طبقہ جوآج تک دال روٹی کے چکرسے باہرنہیں آسکا تمام سیاسی پارٹیوں کے سیاست دانوں سے ایک انتہائی سنجیدہ سوال کرتا ہے کہ ہے کوئی مائی کا لال جو دس اور بیس سالہ منصوبوں کے بجائے صرف پانچ سالوں میں خوراک، لباس، رہائش، صحت وصفائی، تعلیم، امن وامان، ایندھن، بجلی اور پانی جیسے مسائل کو فائلوں اور کمیٹیوں کے بجائے حقیقت میں حل کرکے دکھا دے؟ ہے کوئی ایسا جو ملکی معیشت کی مضبوطی کے روپہلے وعدوں کو شرمندہء تعبیر کر سکے۔

جو کشمیری بھائیوں کے رستے ناسوروں پرمرہم رکھ سکے، ہے کوئی ایسا جو وفاق کی علامت ہو، ہے کوئی ایسا جسے بزعم خود قائداعظم ثانی ہونے کا دعوا نہ ہو بلکہ اپنی حکو متی مدت کے اختتام پر جب وہ عوام کے سامنے جائے پوری قوم یک زبان ہو کر کہے یہ قائداعظم کے خوابوں کی اصل تصویر ہے۔ سب کہیں پیار کا دریا ایک ہمارا پیاس کی شبنم ایک ہے۔ ہے کوئی مائی کا لال؟ جو اقوام عالم کے سامنے پاکستانی قوم کا وقار بلند کر سکے اور پاکستان کو ہاتھ پھیلانے اور قرض لینے والی قوم کے بجائے قرض دینے والی قوم بنا سکے۔ ہے کوئی جو پاکستان کے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنا سکے۔ ہے کوئی؟ ہے کوئی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).