میرے ٹشوز جن سے میں روز آنکھیں پونچھتی ہوں


”زندگی میں سب سے مشکل کام اعتراف ہوتا ہے، ، ہار جانے کا اعتراف، ناکامی کا اعتراف، نا اہلی کا اعتراف، ۔ محبت کا اعتراف!لوگ سمجھتے ہیں صرف ٹیڑھے میڑھے راستوں میں چلنا ٬اونچی نیچی گھاٹیوں کو پار کرنا٬ ڈوبنا اور ابھرنا ہی مشکل ترین امر ہے۔ لوگ نہیں جانتے کہ اپنی ذات کے ٹیڑھے میڑھے راستے دریافت کرنا سب سے مشکل امر ہے، اپنے غرور ہستی کی اونچی نیچی گھاٹیوں کو پار کرنا سب سے مشکل ایڈوینچر ہے، کسی کی محبت میں ڈوبنا اور ابھرنا اس کائنات کی سب سے آخری حد ہے۔

اس کے سامنے کھڑے ہونا، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ اعتراف کرنا کہ میں ہار چکی ہوں، میں اس جنگ میں جو میں ہمیشہ جیت لینے کا تاثر دیتی رہی ہوں، کب سے ہار چکی ہوں۔ اور اب اس جنگ کو جاری رکھنے کا نہ مجھ میں حوصلہ باقی رہا، نہ ہتھیار، نہ جذبہ نہ ارادہ۔ یہ اعتراف کر لینا کہ آؤ جو چاہے میرا اب انجام کرو، میں اپنا آپ تمھیں سونپ چکی ؛اک پہاڑ کے ٹوٹ جانے سے بڑھ کر غضب ناک اور تکلیف دہ تھا۔ زلزلے زمین کو کیا پھاڑتے ہو نگے جو کچھ اعترافات انسانوں کو چیر دیتے ہیں۔ تو تم سے محبت اور اس محبت میں سب کچھ ہار جانے کا اعتراف اک ایسا ہی تکلیف دہ امر تھا۔ “

میں نے قلم رکھا اور اور گیلے کاغذوں کو سوکھنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ فرش پر جا بجا بکھرے ٹشوز بھی ابھی سمیٹنے تھے۔ یہ ٹشوز جن سے میری کتنی سسکیاں اور آہیں نچوڑی گئی تھیں ان کا مقدر بلآخر ایک ڈسٹ بن تھا۔ کیا میرے جذبات اور میری محبت کا انجام بھی اک ڈسٹ بن ہو گا؟ یہ اک ایسا سوال تھا جو میری رائٹنگ ٹیبل پر میرے کاغذ قلم کے ساتھ ہمیشہ دھرا رہتا تھا۔ میں جب بھی کچھ لکھنے کے لئے قلم اٹھاتی، سب سے پہلے یہ سوال پھدک کر آتا، سیٹیاں مارتا اور مجھے اکساتا۔ “ڈسٹ بن۔ ڈسٹ بن!“۔ تو خود کو یہ سمجھانا اور پھر سمجھا کر یہ یقین دلانا کہ نہیں ہر جذبے کا مقدر ڈسٹ بن نہیں ہوتا!نہیں ہو گا!یہ بھی کچھ ایسا آسان کام نہیں تھا۔ جب دریا سارا دائیں سمت بہتا ہو تو اس کے مخالف بہنا اور پھر دور تک بہنا اتنا بھی آسان کہاں ہوتا ہے۔

تو میں جب بھی کہانیاں لکھ لکھ کر بھیجتی، اپنی زندگی کی پرتیں کھولتی، ان سے چپکے ہوئے صفحات کی طرح چپکی کہانیاں اکھاڑتی اور اور انہیں الفاظ میں ڈھال کر اپنے اوراق پر یا برقی کتاب پر محفوظ کرتی تو کتنی ہی سسکیاں، آہیں اور تپتے بلکتے آنسو میرے قلم کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے بہتے اور ان صفحات میں جذب ہو جاتے۔ اور انہیں سب گرتے موتیوں کو چنتی میں کہانیاں بناتی، کرداروں کو بدلتی، اچھوں کو برا لباس پہناتی اور برے کو خوبصورت پیراہن اوڑھا کر ان کہانیوں کو اپنے تخیل کے رنگ میں ڈھال دیتی، ان کو اس طرح بدل دیتی جیسے کہ میں ان کو حقیقت میں بدل نہیں پاتی۔ تو صبح ہوتے ہی میری میز پر، میرے سمارٹ فون پر، میری ای میل میں پیغامات کا انبار لگ جاتا۔

”افففففف!کیا لکھتی ہیں آپ!“
”کیسے لکھتی ہیں آپ؟ “
”اتنا اچھا کس طرح سے لکھ دیتی ہیں آپ؟ “
اور میں اس سے پہلے پہلے یہ گیلے صفحات سکھا لیتی، بکھرے ٹشوز ڈسٹ بن میں ڈال کر ہر اک سسکی کی آہٹ تک دفن کر دیتی۔

تو آج بھی ایک ٹی وی ہوسٹ نے انٹرویو لیتے اپنے خوبصورت رنگوں سے رنگی انگلیاں تھوڑی پر ٹکائیں اور مجھ سے وہی پوچھا:
”اتنا خوبصورت کیسے لکھ لیتی ہیں آپ؟ “

میں ہنسی، فقرو ں کو ہواؤں میں اڑایا، ہاتھ لہرایا اور ہنس کر کہا :“مجھے تخیل کی اڑانیں بہت پسند ہیں! مجھے لوگوں کی کہانیاں سننے کا شوق ہے! بس انہیں سے کشید کر لیتی ہوں میں یہ سب داستانیں“

اعتراف بہت مشکل ہوتے ہیں ناں مگر یہ ایک اعتراف سب سے مشکل ہے کہ یہ سب میری کہانیاں ہیں!یہ سب ظلم میری ذات نے سہے ہیں۔ یہ سب دکھ جنہیں سکرین پر دیکھ کر بہت سے لوگ رو پڑتے ہیں ان کو میں نے اپنے سینے پر جھیل رکھا ہے۔ یہ کہانیوں سے بھرے میرے اوراق دراصل میرے ٹشوز ہیں جن سے میں روز آنکھیں پونچھتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).