کیا گلگت بلتستان کے عوم “متنازعائی” مخلوق ہیں؟


گذشتہ دنوں دفترِخارجہ کے ایوانوں میں ایک بار پھر بازگشت سُنائی دی کہ گلگت بلتستان والے متنازعہ ہیں۔ ترجمان نے اپنے اُصولی ”موقف“ کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ“ سرتاج عزیز رپورٹ“ پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کی مکمل ترجُمانی کرتی ہے تاہم اگر کسی کو اِس کی جزئیات معلوم کرنی ہو تو اُس کی تفصیل خود سرتاج سے معلوم کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم تو شروع دن سے یہ بات کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی شناخت کا تمام تر دارو مدار اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی ”غیر مرئی“ اور متوقع استصوابِ رائے پر ہے۔ موصوف کی اس مبہم ترجمانی کو سمجھنے اور پاکستانی سیاسی اُلجھن کو درک کرنے کا ایک دُرست راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم دو فریقوں کی صورت میں بحث کریں:

فریقِ اول:
دفتر خارجہ و پاکستانی سیاست کے شیریئے (شیر) و شیرنیئے (شیرنی) کہ جن کی عقابی نظریں بہت دُور (گلگت بلتستان) تک ہوتی ہیں اور نظر کی پھیری کا کمال دیکھیے کہ جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ خطہ متنازعہ ہے۔

فریقِ دوم:
گلگت بلتستان کے عوام کہ جو بقول شخصے متنازعہ ہیں۔ اگر یہ بیانیہ دُرست ثابت ہوا تو ہم ”متنازعائی مخلوق“ قرار پائے۔

بابا رحمَتے و برکَتے و حرکتیئے نے اس اعلامیہ پر مجھ سے سوال کیا کہ چلو مان لیتے ہیں کہ تم پاکستانی ہو اور پاکستان سے وفاداری کا اظہار بھی کرتے ہو۔ لیکن دوسری طرف نصف صدی سے زائد عرصہ ہوا بلکہ اب تو ایک صدی پوری ہونے والی ہے پھر بھی تم پاکستانی نہیں ہو تو میں نے کرارا جواب دیتے ہوئے کہا: ہم ہرگز بھی متنازعہ نہیں، ہماری پہچان، ارمان، دبستان سب کچھ پاکستان ہے۔ اگر کوئی اپنی سمجھ بوجھ سے ہمیں دائرہ پاکستانیت سے خارج کرتا ہے تو یہ اُس کی سوچ کا فتور ہے میری پہچان و شناخت کا قصور نہیں۔ ہم سب جی بیئن کا ایک مرتبہ پھر اصرار ہے کہ ہم متنازعائی مخلوق نہیں۔ ہم اس دھرتی کے اٹوٹ انگ سپوت ہیں اور پاکستان سے ہمارا الحاق اسی طرح برقرار رہے گا جس طرح ہم نے آزادی کے وقت الحاق کیاتھا۔ ہاں! اگر پاکستانی ریاستی مشنری نے ہمیں کھونے کی غلطی کی تو یہ اُن کےلئے صدمے کا باعث ہوگا ہمیں نہیں کیونکہ ہم تو ہر حال میں پاکستانی ہی رہیں گے۔

قومی مسئلہ یہ ہے کہ لڑائی اور باہمی دست و گریباں ہونا ہماری خاصیت بن چکی ہے۔ قومیت سے لے کر مسلک تک باہمی نزاع کا عفریت ہمارے قومی شعور میں اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی بھی غوطہ زن ہونا لازمی سمجھتا ہے۔ ایسے میں کوئی ”اور“ ہماری قسمتوں اور فیصلوں کا ضامن بن جائے تو بُرا کیا ماننا؟ اس میں سب سے بڑا قصور ہمارا بھی ہے۔ ہم نے کبھی قوم بننے کی جستجو نہیں کی۔ قومی دستور و قومی شعور ہمارے لئے ناسور بن چکا ہے۔ گویا فرض و ذمہ داری کا تعین نہ ہم نے کیا اور نہ ہمارے قومی رہبران نے کیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ قومی و مسلکی عصبیت کی پرچھائیاں واضح ہوتی جارہی ہیں۔ بس ایک موہوم سی اُمید ہے کہ نئی نسل ان صنم کدوں کو اُٹھا پھینکے گی اور باہمی شعور و ادراک کا وہ نظارہ ہوگا کہ انشاء اللہ ہماری قومی شناخت اُبھر کر سامنے آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).