نئے پاکستان سے وابستہ امیدیں اور مٹی کی مونا لیزا


ایک ایسا پاکستان جہاں بڑے چور کے لئے بھی سزا ہو، ایک ایسا پاکستان جہاں قانون سب کے لئے برابر ہو، ایک ایسا پاکستان جہاں سہولتیں صرف اشرافیہ کا حق نہ ہوں بلکہ سب کو میسر ہوں۔ پرانے پاکستان میں نہ ہوا تو امید لگا لی کہ نئے پاکستان میں ہو گا۔ نئے پاکستان کا ٹھیکہ اٹھانے والے نے مگر پرانے راج مستری، مزدور اور دیھاڑی دار جب اکھٹے کرنا شروع کیے تو دل کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ سیمنٹ بجری میں ملاوٹ کر کے کراچی کے شیر شاہ پل والا حشر نہ کر دیں۔ تسلیاں بھی بہت دی گئیں اور صفائیاں بھی کہ پرانے کو ملائے بغیر گزارا نہیں ہو پائے گا۔ کسی کو لگتا ہے نیا پاکستان نہیں بن پائے گا۔ کسی کو لگتا ہے بنے گا مگر ٹھیکیدار کو بدل دیا جائے گا۔ غرض طرح طرح کی باتیں۔

میں ایک عام پاکستانی ہوں۔ میرا مسئلہ واقعی پانی اور بجلی ہے۔ گیس اور پیٹرول کی قیمت ہے۔ مجھے سستے وائی فائی سگنل چاہیئیں کہ میرا دفتری کام متاثر نہ ہو اور میں دنیا سے رابطہ رکھ پاوں۔ مجھے بجلی کا بل دیکھتے ہی سر نہیں پکڑنا۔ مجھے جنریٹر اور یو پی ایس کی فکر میں نہیں گھلنا۔ میرا مسئلہ میرے بچوں کی حفاظت اور ان کے اسکول میں معیاری پڑھائی ہے۔ نجی اسکول کا جب دل کرتا ہے فیس بڑھا دیتا ہے مگر اس کا معیار جانچنے والا کوئی نہیں۔ سندھ بورڈ میں جو کورس میں نے، میرے بھائی نے، میری امی نے پڑھا تھا تقریبا وہی میرے بچے پڑھیں گے۔ سرکاری اسپتال میں جان پہچان کے بغیر کام ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا عام پاکستانی کے لئے نئے پاکستان میں یہ سب بنیادی سہولتیں ہوں گی؟

مجھے یہیں رہنا ہے، میری نسلوں نے یہیں رہنا ہے۔ راج مزدور کوئی بھی ہو، ٹھیکیدار کوئی ہو مجھے تو اپنا محفوظ مستقبل چاہیے جہاں بل بھروا کر بجلی بھی نصیب ہو۔ یہ نہیں کہ ایک ہاتھ سے میں بل بھرواوں اور دوسرے ہاتھ میں جنریٹر میں ڈالنے کا تیل ہو۔ کون میرے بچوں کے لئے معیاری تعلیم کا سوچے گا؟ وہ جن کے اپنے بچے کبھی پاکستان میں نہیں پڑھنے والے؟ ان سب کے علاج باہر ہو جائیں گے مگر جب ہم پر بیماری آئے گی تو اسپتال میں بستر ملے یا نہیں اس کی گارنٹی کون دے گا؟ آج سب کو ہماری ہمدردی چڑھ آئی ہے۔ عشروں سے ہمارا حق کھانے کے بعد آج کہتے ہیں ایک موقع اور دو پھر سب سکھ چین ہو جائے گا۔ کیا ایک بار پھر ان شعبدے بازوں پر یقین کر لیں؟

اردو کے معروف قلمکار اے حمید جنہوں نے عینک والا جن بھی لکھا تھا۔ ان کے شاہکار افسانے تو بہت ہیں مگر میرا پسندیدہ افسانہ ”مٹی کی مونا لیزا“ ہے۔ اس افسانے سے ایک اقتباس عہد حاضر کے الیکشن کی فضا میں بھرپور لطف دیتا ہے۔

”سب ڈرائنگ روم لورز ہیں، ٹھنڈی نشست گاہوں میں انناس کے قتلے اور کولڈ کافی کا گلاس سامنے رکھ کر محبت کی سرد آہیں بھرنے والے عاشق ہیں۔ یوکلپٹس کی پتیوں کو فرنچ عطر کانوں پر لگا کر کہانیاں لکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔ قوم، مذہب، ملت اور سیاست کے نام پر اپنی گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے والے اور اپنی کوٹھیوں میں نئے کمرے بنوانے والے دردمندان قوم ہیں۔ عشرت انگیزی ہے، تضع آمیزی ہے، زر پرستی ہے، خود پسندی ہے، جعلی سکے ہیں کہ ایک کے بعد ایک بنتے چلے جا رہے ہیں۔ روشنی کے داغ ہیں کہ ایک کے بعد ایک ابھرتے جا رہے ہیں۔

انہیں صغراں بی بی کے بچوں کی پھنسیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں اس کے ڈاکیے خاوند کے تاج محل کی بربادی کا کوئی علم نہیں۔ انہیں کھری چارپائی پر گندے نالے کے پاس رات بسر کرنے والوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دھان زمین میں اگتا ہے یا درختوں پہ لگتا ہے انہیں کوئی خبر نہیں۔ یہ اپنے ملک میں اجنبی ہیں۔ یہ اپنے گھر میں مسافر ہیں۔ یہ اپنوں میں بیگانے ہیں۔ چیک بک، پاسپورٹ، کار کی چابی، کوٹھی اور لائسنس۔ یہی ان کی منزل ہے، یہی ان کا محور ہے، یہی ان کا مرکز ہے، یہی ان کا مذہب ہے اور یہی ان کا پاکستان ہے۔ یہ وہ باسی کھانے ہیں جن کی تازگی ریفریجریٹر بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ یہ دو سورجوں کے درمیان کا پردہ ہیں۔ یہ کھلے ہوئے متبسم لبوں کے درمیان کی تاریک لکیر ہیں۔ یہ اس غار کے منہ پر تنا ہوا جالا ہیں جہاں چاند طلوع ہو رہا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).