نیب عدالت کے فیصلے میں سات شکوک اور سقم


آخرکار وہی ہوا جو طے تھا۔ ایون فیلڈ پراپرٹی ریفرنس میں احتساب عدالت کا سخت فیصلہ متوقع تھا لیکن عدالتی فیصلہ کا جاری ہونے سے پانچ گھنٹے قبل من و عن سوشل میڈیا پر گردش کرنا احتساب عدالت کی شفافیت اور غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے وہ صحافی جو عمران خان کو ظلِ سبحانی دیکھنا چاہتے ہیں، ماشائی اللہ! پیرنی کی برکت سے ان کو علمِ غیب بھی عطا ہو گیا ہے۔ محترم صابر شاکر نے 6 جولائی دوپہر11:30 بجے ہی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے احتساب عدالت کا فیصلہ جاری کر دیا تھا جبکہ احتساب عدالت نے فیصلہ 4۔ 30 بجے سنایا۔ سبحان اللہ۔ کاش ہم جیسے بے مرشدوں کو بھی کسی پیرنی کے چرنوں تلے جگہ مل جائے اور ایسی دور بینی ہمیں بھی نصیب ہو جائے۔

احتساب عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹری ریفرنس میں نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قیدِ بامشقت اور 80 لاکھ پاؤنڈ ایک ارب تیس کروڑ روپے جرمانہ، مریم نواز کو مجموعی طور پر 8 سال قیدِ بامشقت، 20لاکھ پاؤنڈ âبتیس کروڑ روپے جرمانہ اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی ہے۔ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ پراپرٹی بحقِ سرکار ضبط کرنے کے احکامات بھی صادر فرمائے ہیں۔ نواز شریف کو کوئی بھی سیاسی عہدہ رکھنے کے لئے 21 سال اور مریم نواز کو 18 سال کے لئے نا اہل قرار دیا ہے۔ یوں جمعہ کے روز نواز شریف کو عدالتوں کی طرف سے نا اہل کرنے کا یہ چوتھا عدالتی فیصلہ ہے۔

اسلام آباد احتساب عدالت نمر 1 کے جج محمد بشیر نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی 1993سے نواز شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ نواز شریف ایون فیلڈ پراپرٹی کی خریداری بارے ثبوت اور منی ٹریل دینے میں ناکام رہے۔ عدالت نے مریم نواز شریف کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی ٹرسٹ ڈیڈ کو بھی جعلی قرار دیا۔ تاہم عدالت نے یہ بھی لکھا کہ استغاثہ نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لئے نواز شریف اور اس کے خاندان کو کرپشن کے الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔

عدالت نے قطری خط کو سنی سنائی بات لکھا ہے۔ نواز شریف کے جے آئی ٹی کے گواہان پر اٹھائے گئے تمام اعتراضات مسترد کر دیے اور ایون فیلڈ پراپرٹی کو نواز شریف کی ملکیت قرار دے کر سزا سنا دی۔ قارئین کو یاد رہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف فلیگ شپ اور ہِل میٹل کے ریفرنس بھی منطقی انجام کو پہنچنے کے قریب ہیں اور ان میں بھی شریف خاندان کے لئے کڑی سے کڑی سزائیں طے کر لی جا چکی ہوں گی۔

قانونی ماہرین احتساب عدالت کے اس فیصلہ میں بہت سے سقم دیکھ رہے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مریم نواز نے فروری 2006 کی جو ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروائی تھی اس پر کیلبری فونٹ کے استعمال کا اعتراض اٹھا۔ تاہم نیب عدالت میں دوران ِ سماعت فارینزک ماہرین کی رائے اور نیب کے گواہ رابرٹ ریڈلے کی طرف سے اپنی دستاویز سے مکرنے اور یہ اقرار کرنے کے بعد کہ کیلبری فونٹ 2005 میں بھی موجود تھا ٹرسٹ ڈیڈ پر یہ اعتراض ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن احتساب عدالت نے اس اعتراض کو برقرار رکھا اور ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دیا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک ایسی پراپرٹی جو پاکستان میں موجود ہی نہیں اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ وہ کرپشن یا پاکستان سے کی گئی منی لانڈرنگ کی گئی رقم سے خریدی گئی، اس کی قرقی کا حکم پاکستان کی احتساب عدالت کیسے دے سکتی ہے؟ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں کہ حکومتیں دوسرے ملک میں شہریوں کی جائیدادیں قرقی کروا سکیں۔

تیسری بات، احتساب عدالت نے جرح کے دوران نیب گواہان پر وکیلِ صفائی کے تمام اعتراضات مسترد کیوں کیے؟ ان میں بیشتر اعتراضات بازی پلٹ نوعیت کے تھے اور قانونی ماہرین اور تجزیہ نگار ان اعتراضات کو انتہائی اہم قرار کر دے رہے تھے۔

چوتھی بات، احتساب عدالت نے یہ فیصلہ الیکشن سے صرف انیس روز قبل ہی کیوں دیا؟ اس کی ٹائمنگ ایسی کیوں رکھی گئی؟ کیا اس سے تحریکِ انصاف کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ 03 جولائی کو ریفرنس کی سماعت مکمل کی اور 06 جولائی کو174 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا۔ تین دن میں جناب محمد بشیر نے 176صفحات کا فیصلہ کیسے لکھ لیا؟ ان کی کوئی مدد کر رہا تھا یا لکھا لکھایا فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے۔

پانچواں نقطہ انتہائی اہم ہے۔ نواز شریف نیب کی 78اور مریم نواز 80 پیشیوں پر حاضر ہوئیں۔ سماعتوں کے دوران احتساب عدالت نے کہیں ملزمان کی طرف سے عدم تعاون کے ریمارکس نہیں دیے۔ پھر یہ عدم تعاون کی دفع لگا کر سزا میں ایک ایک سال کا اضافہ کیوں؟

چھٹی بات، احتساب عدالت کی طرف سے جاری کردہ فیصلہ کے آخری صفحہ پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے دو دستخط ہیں۔ ان دونوں دستخطوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تو کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فیصلہ بھی کہیں اور سے آیا ہے اور دستخط بھی محمد بشیر صاحب نے خود نہیں کیے۔

ساتویں بات، احتساب عدالت کمرہ نمبر 1کے باہر کھڑے صحافی حضرات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ فیصلہ سنانے سے کچھ دیر قبل عدالت کے کمرے میں کچھ فائلیں اور مہریں منگوائیں گئیں۔ اس کی وجہ سے بعض افراد یہ شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ فیصلہ کہیں اور سے آیا اور اس پر دستخط بھی کسی اور کے ہیں جس پر آخر میں سٹیمپ لگا کر موقع پر ہی فوٹوکاپیاں کروائی گئیں۔ عدالت کی طرف سے مریم نواز اور حسین نواز کے ٹی وی انٹرویوز کو ثبوت کے طور پر لینا بھی حیران کن بات ہے۔

اس فیصلہ کے بعد شریف فیملی کے لئے ہائیکورٹ میں اپیل کرنے کا دس دن کا وقت ہے لیکن اس سے قبل انہیں گرفتاری دینا ہو گی۔ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کی منشائی کے خلاف فیصلہ دے گی؟ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس لئے شریف فیملی کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ جب تمام ادارے، عدلیہ، نیب، محکمہ زراعت، تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر سکیورٹی ادارے صرف ایک ہی خاندان کا احتساب کریں، اور پاکستان بھر کے دوسرے چوروں اور ڈاکوؤں کو کلین چٹ دے رہے ہوں، تب یہ بات ببانگِ دہل کہنے میں میں کوئی حرج نہیں کہ جانبداری ہو رہی ہے اور تمام معاملات کہیں اور سے کنٹرول ہونے کا تاثر پختہ ہو رہا ہے۔

عام طور پر جب اس طرح کے سوالات اٹھتے ہیں جہاں پر یہ ثابت نہ ہو کہ کرپشن ہوئی ہے یا نہیں، ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا جاتا ہے لیکن اس کیس میں شک کا فائدہ استغاثہ کو دیا گیا اور محض مفروضوں کی بنیاد پر ملزمان کو کڑی سے کڑی سزائیں دے کر نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).