منگو رکشے والا اور عدالتی فیصلے پر انقلاب


لاہور کے ایک ہوٹل میں لوگ ٹیلی وژن کے گرد جمع تھے اور ایک نوواردنظریاتی کی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے بے تاب تھے۔ کوئی جج کو بُرا بھلا کہہ رہاتھا تو کوئی قانونی پیچیدگیاں بیان کر رہا تھا، لوگوں کے چہروں پر غم یا خوشی کی بجائے تجسس اور اضطراب تھا لوگ کچھ جاننا چاہتے تھے نو ماہ تک انہوں نے اس حوالے سے صحافیوں، تجزیہ کاروں اور دوستوں کی کِل کِل کو برداشت کیا تھا۔

منگو رکشے والا بھی سگریٹ سلگاتا ہوا اس بھِیڑ میں شامل ہو گیا ٹی وی سکرین پر نظریں جما لیں جہاں اس کے محبوب قائد کی تقدیر کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ اور پھر فیصلہ آ گیا اور وہ بھی اس کی سوچ اور امنگوں کے خلاف، اس کے لیڈر کو سزا سُنا دی گئی۔ منگو بہت افسردہ ہوا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ جس دن میرے لیڈر کو سزا ہوئی اس دن انقلاب آئے گا اور اس انقلاب کے راستے میں جو بھی آئے گا خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ اس سوچ کے ساتھ ہی منگو کے بدن میں جوش پیدا ہوا اور اس نے با آواز بلند اپنے لیڈر کے حق میں نعرہ مستانہ بلند کر دیاجس پر سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔

منگو غصے سے اپنے رکشے کی طرف بڑھا اور اسے اسٹارٹ کر کے اس طرف چل دیا جہاں اسے امید تھی کہ انقلابی جمع ہونا شروع ہو گئے ہوں گے۔ اس کے دل میں اپنے مخالفین کے لئے نفرت کا جوار بھاٹا سر اُٹھانے لگا اور وہ سوچنے لگا کہ انقلاب کے بعد ان سے کیسے بدلہ لینا ہے۔ اچانک اس نے رکشے کو بریک لگائی اور سڑک کنارے کھڑے کھمبے پر سے مخالف پارٹی کا جھنڈا اتارا اس میں سے سوٹی نکالی اور جھنڈا نفرت سے وہیں پھینک دیا۔ وہ رکشہ چلا رہا تھا اور ساتھ ہی سوچ رہا تھا کہ ابھی تک انقلابی ریلیاں نظر نہیں آئیں، ضرور کہیں پہ صف بندی ہو رہی ہو گی، انقلاب تو آئے گا اور ضرور آئے گا کون روک سکتا ہے عوامی طاقت کو؟

منگو فرط جذبات میں اتنا سرشار تھا کہ سگنل پر کھڑے وارڈن کو دیکھ کر اس نے زور سے ہارن بجا دیا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ انقلاب کے بعد تمہیں بھی دیکھ لیں گے بچو! انقلاب کی تلاش میں سرگرداں وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ صبح سے دو سواریاں ملی ہیں اور جیب میں صرف اڑھائی سو روپے ہیں اگر انقلابی احتجاج لمبا ہو گیا تو وہ پٹرول کیسے ڈلوائے گا اور گھر راشن کیسے لے کر جائے گا؟ مگر پھر اس نے یہ سوچ کے رفتار بڑھا دی کہ انقلاب کے لئے قربانیاں دینی پرتی ہیں، اپنے محبوب قائد کی سزا کا سن کے اس کا دماغ اس کے رکشے کے انجن کی طرح تپ رہا تھا وہ بار بار ریس دباتا، بریک لگاتا اور پہلو بدلتا مگر اسے چین پھر بھی نہیں آرہا تھا۔ اسی غصے اور جھنجھلاہٹ میں اس نے پاس سے گزرنے والے ایک نوجوان کویہ کہتے ہوئے سوٹی دے ماری کہ یہ لے یہ ہے تیرا نیا پاکستان، انقلاب کے بعد دیکھوں گا تمہیں۔

رکشے کی پھٹ پھٹ اور منگو کے دل کی دھک دھک کے تال میل سے ایک پراسرار سا سماں بندھ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے یا خود اس کے رکشے کا دھواں یہ معلوم کرنا مشکل تھا۔ وہ فیروز پور روڈ سے ہوتا ہوا ساتھیوں کی تلاش میں ماڈل ٹاؤن پہنچا مگر اسے وہاں بھی کوئی چاک گریباں انقلابی آہ و فریاد کرتانظر نہیں آیا۔ بڑے بڑے گھروں کے مکین ائر کنڈیشنڈ کمروں میں ٹی وی پر خبریں اور تجزیے دیکھنے میں محو تھے۔ منگو کے رکشے کا احتجاجی شور اور اس کے جذبات اندر بیٹھے لوگوں سے کوسوں دور تھے۔ اس کا غصہ بڑھتا چلا جا رہا تھا اور وہ پیچ و تاب کھا رہا تھا کہ آخر لوگ باہر کیوں نہیں نکل رہے؟ اس نے اپنے ساتھی رکشہ ڈرائیوروں کو ٹیلی فون بھی کیے مگر سب نے جواب دیا کہ سواری لے کر جا رہے ہیں، بعد میں بات کرتے ہیں اسے ان کی اس مطلب پرستی پر غصہ تو بت آیا مگر وہ برداشت کر گیا۔

اچانک اسے خیال آیا کہ ہر مسئلے پر احتجاج مال روڈ سے ہی شروع ہوتا ہے کیونکہ وہ خود اپنے لیڈر کے دور حکومت میں پٹرول مہنگا ہونے پر وہاں احتجاج کر چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس انقلاب کی ابتدا بھی وہیں سے ہو گی، اس نے ماڈل ٹاؤن کے مکینوں کو زوردار گالی دی اور رکشہ مال روڈ کی طرف بھگا دیا۔

اسے غصہ آ رہا تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا ہے مگر یہ لوگ کیسے دکانوں میں بیٹھے ہیں، کیسے کھا پی رہے ہیں، گاڑیاں چل کیوں رہی ہیں، ٹریفک رُکا کیوں نہیں یہ خیال آتے ہی اس کی نظر فیول میٹر پر پڑی جہان پٹرول تیزی سے کم ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر سر کو جھٹکا اور انقلاب کے عظیم مقصد کے بارے میں سوچتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، نہ توڑ پھوڑ ہو رہی تھی اور ناں کہیں آگ لگی تھی اور اگر کہیں لگی تھی تو وہ اس کے سینے میں تھی نو انقلاب کے ساگر سے ہی بجھ سکتی تھی۔ منگو رکشے والا، انقلاب کا خواہاں مال روڈ پر پہنچا جو اس کی منزل تھی جہاں اس کا محبوب قائد تمام پابندیاں توڑ کر آئے گا اور اس انقلابی قوم کی رہنمائی کرے گا جس کا وہ ایک ادنیٰ سا کارکن ہے۔ مگر یہ کیا یہاں بھی کوئی جتھہ نہیں، کوئی نعرہ بازی نہیں، کوئی سینہ کوبی نہیں اور تو اور سگنل کی بتی بھی ہری ہے جو اسے اشارہ کر رہی ہے کہ گزر جا۔ اور وہ گزر گیا

اگلے دن منگو کے دوستوں نے پوچھا کہ یار سنا کل گیا تھاتو احتجاج کرنے اپنے لیڈر کے ساتھ ہوئی زیادتی پر؟ منگو نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ یہ انقلاب وغیرہ امیروں کے چونچلے ہیں سب بے وقوف بناتے ہیں ہمیں۔ میں کل سارا دن انقلاب ڈھونڈتا رہا اور میرے تین سو روپے اس میں لگ گئے، گھر میں فاقہ ہوا اور چھوٹی بیٹی کے لئے دودھ بھی نہیں خرید سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).