لاش بن جاؤ


آج کی صبح بہت حسین لگی کیونکہ میں ایسے پاکستان میں جاگا ہوں جس میں واحد کرپٹ شخص محمد نواز شریف کو 6 سال کی محنت شاقہ کے بعد ’اپنی طرف‘ سے ٹھکانے لگا دیا گیا، اور اب سب امن شانتی ہے، پاکستان پیرس بن گیا ہے، کوئی رشوت خور نہیں، ہر ادارے میں چیک بغیر حصہ دیے کلیئر ہو رہے ہیں، اور، اور، اور۔

ڈگڈگی اچھی بجائی گئی ہے، قوم اس دھن پہ کچھ عرصہ مست رہے گی اور پھر اتنی دیر میں مداری کے کھیل کے کردار بدل کر یہی والا ڈرامہ نئے سرے سے ہوگا۔ یہ ڈرامہ اس ملک کے اصل حکمران ہر دس سال بعد کرتے ہیں۔ اس کھیل میں کچھ ناپسندیدہ کردار بنائے جاتے ہیں اور استعمال کے بعد اگلے 10 سال وسائل ان کرداروں کو ٹھکانے لگانے پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں کچھ کردار ایسے بھی تخلیق کیے جاتے ہیں جو ناقابل تلف ہوتے ہیں اور ناسور بن کر رسنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اگر کچھ لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ یہ نئی شروعات ہیں یا 2018 کا الیکشن کوئی بہت بڑی تبدیلی لارہا ہے تو ان سے گزارش ہے کہ 1947 سے 1958؛ 1958 سے 1969؛ 1969 سے 1977؛ 1977 سے 1988؛ 1988 سے 1998؛ 1998 سے 2008 اور اب 2018 کے اس دس سالہ کھیل کا تجزیہ کریں اور جاننے کی کوشش کریں کہ ان سب تبدیلیوں کا اصل فائدہ کس کو ہوا؟

چونکہ اطلاعات کے ذرائع اب لا محدود ہوگئے ہیں اور ہیں بھی ایسے کہ ہر ذریعے کو فون لگا کر پابند نہیں کیا جاسکتا تو اب کی بار اس کھیل کی اگلی قسط دس سال سے پہلے نشر ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہمیشہ مثبت سوچنے اور مثبت کرنے پہ جنون کی حد تک یقین رکھنے والے سہیل کو اب اپنا یہ پسندیدہ ترین شعر بھی زہر لگنے لگا ہے۔

شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی شمع جلائے جاتے

کل کے فیصلے پر جب میں نے اپنا یہ تجزیہ بیان کیا تو قربان جوگی نے کہا ”خود جلو یا کسی کو جلا لو، روشن رہنے کے لئے کچھ اور بچا ہی نہیں“

اس پہ دل نے کچھ ایسے جواب دیا
ابھی چند تجوریاں باقی ہیں
ابھی کچھ کانیں رہتی ہیں
ابھی کچھ لاشے اٹھنے ہیں
ابھی کچھ حصے بٹنے ہیں
ابھی کچھ وہشی زندہ ہیں
ابھی کچھ گوشت باقی ہے
ابھی کچھ ناچ باقی ہے

یہ موسم جھوٹے الاؤ کا
یہ موسم الٹے بہاؤ کا
یہ موسم ڈبوئے گا ناؤ کو

اگر اب زندہ رہنا ہے
تو صرف ظلمت کو سہنا ہے
ہاں میں ہاں ملانی ہے
خوابوں کو جلانا ہے

ابھی کچھ زندہ لاشوں کی
اس کھیل میں ضرورت ہے
چلو تم لاش بن جاؤ
چلو تم لاش بن جاؤ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).