عمران خان کو نواز شریف کی یاد آ ہی گئی


عمران خان اپنی بائیس برس کی سیاسی زندگی میں پہلی دفعہ بہت زیادہ پرامید ہیں۔ پانچ جولائی کو ایک اچھے انگریزی اخبار میں یہ انٹرویو چھپا، پڑھ کے مزا آ گیا۔ چند باتوں کے علاوہ کہیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہی اپنے پرانے والے عمران خان ہیں۔ مثلاً یہی آخری جملہ دیکھیں، “میں نہیں جانتا کیا ہو گا لیکن اپنی بائیس سالہ سیاسی زندگی میں کبھی اس سے زیادہ پرامید میں نہیں ہوا” یعنی عمران خان کو اپنی جیت میں شک ہے؟ اس بات کا پورا کونٹیکسٹ تھا، انہیں دو تین سروے بتائے گئے کہ بھئی فلاں سروے یہ کہتا ہے فلاں یہ کہتا ہے اور کل ملا کر نواز لیگ اور تحریک انصاف آس پاس نظر آتے ہیں، تو آپ کیا کہیں گے؟ اس پر عمران خان نے جیتنے کی امید ظاہر کی۔ اس سے پہلے ان کے بیانات شک والے کبھی نہیں ہوتے تھے، ہم جیتیں گے، کرپٹ لوگوں کو ہرائیں گے، ان کی ایسی تیسی کریں گے، بس یہی کچھ ہوتا تھا۔ کرپشن پہ یاد آیا اسی انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر کسی دوسری جماعت سے انہیں کولیشن کرنا پڑا تو وہ کیا کریں گے؟ اس پہ بھی ان کا جواب قطعیت والا نہیں تھا۔ “اتحاد سامنے والے پارٹنر کو دیکھ کر ہو سکتا ہے، اگر وہ ہمارے منشور کے مطابق ہمیں کام کرنے دے گا تو اٹس فائن، (پھر انہوں نے اپنی سٹیٹمینٹ میں تھوڑے لفظ اور شامل کیے) ہاں اگر ایک سیاسی جماعت کا سربراہ کرپٹ ہے، تب اس سے کولیشن ذرا مشکل ہو جائے گا۔” یعنی کرپٹ سے اتحاد مشکل تو ہو سکتا ہے ناممکن بہرحال نہیں ہو گا؟ ہمارا پرانا لیڈر کہاں گیا بھائی؟ اگر خدانخواستہ کہیں پہ عمران خان کھلے عام زرداری صاحب، شہباز شریف یا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اتحاد کرنے بیٹھ گئے تو نیا پاکستان بنانے کے مشن پہ نکلی پوری قوم کدھر جائے گی؟ ان تینوں کو تو بارہا وہ کرپٹ کہہ چکے ہیں بلکہ دل و جان سے اس بات پہ ان کا پورا ایمان تھا کہ ان کی سیاست شروع ہونے کے بعد جو بھی ان سے جیتا وہ کرپٹ ہو گا تبھی جیتا۔

جب ان سے پوچھا کہ حکومت میں آنے پر وہ سول ملٹری تعلقات کیسے بہتر بنائیں گے تو انہوں نے کہا کہ “گڈ گورننس” ان کی سٹرینتھ ہو گی۔ سنا ہوا سا لفظ ہے نا؟ خیر، تو ان کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان میں چونکہ بری ترین سیاسی حکومتیں آئیں اس لیے انہیں مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہ بھی کہنے لگے کہ میں اس چیز کو ٹھیک نہیں ثابت کر رہا لیکن بھئی اگر کہیں خلا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی چیز تو پٌر کرے گی۔ مشرف حکومت نے جب مارشل لا لگوایا تو لاہور میں لوگوں نے جشن منایا، جو نواز شریف کا سیاسی گڑھ ہے، کیونکہ حکومت فیل ہو چکی تھی! پھر انہوں نے ایک اور بات کہی، “بھٹو طاقتور ترین وزیر اعظم تھا۔ اس نے اپنی مرضی سے ہئیت مقتدرہ کے افسر ہٹائے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے بھرپور حکومت نہیں کی، جب لوگ سیاست میں عسکری عناصر کی بات کرتے ہیں تو انہیں جاننا چاہئیے کہ ہئیت مقتدرہ نے بھٹو کی حکومت میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی، کیونکہ وہ ایک طاقتور حکمران تھا۔” جناب عالی! بالکل ٹھیک پڑھ گئے ہیں آپ، یہی ترجمہ ہے، فقیر نے بھی پوری انگریزی کا زور لگا دیا لیکن واقعی یہی لکھا ہے بابا! تو ایک تو خان صاحب کو یقین ہے کہ اگر کہیں خلا پیدا ہوا تو ادھر وہ گیپ بھرنے کوئی نہ کوئی ضرور آئے گا اور دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ میں خلا بھرنے کو جسٹیفائے بھی نہیں کرتا، میں یہ بھی چاہتی ہوں تیرا گھر بسا رہے، پر یہ بھی چاہتی ہوں کہ تو اپنے گھر نہ جائے۔ عشقیہ شاعری اور آئین بازی، ان دونوں کی اب مونچھیں تک سفید ہو چکیں، نیا پاکستان بنے گا، ابھی چند دن پہلے یہ بھی علم ہوا ہے کہ ملک بہرحال آئین سے نہیں بچایا جا سکتا، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! بہرحال خدا کرے اگر عمران خان کی حکومت بنے تو کوئی خلا موجود نہ ہو، جون ایلیا نے خلا اور آسمان کو تکنے کے حوالے سے بڑے پاور فل شعر کہے ہیں، ابھی تو بس وہ پڑھتا ہوں اور سر دھنتا ہوں کہ لاریب کبھی کبھی نویسندہ گھونگھٹ نکال کر بھی لکھتا ہے۔

“آپ الیکشن جیتنے کے لیے لڑتے ہیں، آپ اس لیے نہیں لڑتے کہ آپ نے اچھا بچہ بننا ہوتا ہے۔ میں جیتنا چاہتا ہوں، میں پاکستان میں الیکشن لڑ رہا ہوں یورپ میں نہیں کہ وہاں کے سیاست دان امپورٹ کر لوں گا۔” سارے الیکٹیبلز جمع کرنے پہ اس بات کے علاوہ ایک بات خان صاحب نے یہ بھی کہی کہ وہ تو شروع سے چاہتے تھے کہ ایسے لوگ ان کے پاس آئیں لیکن وہ آتے ہی نہیں تھے، ایم پی اے، ایم این اے کو تو چھوڑیں بابا یونین کونسل والے الیکٹیبل نہیں آتے تھے، پھر خان صاحب کے مطابق اچانک مینار پاکستان پہ ۲۰۱۱ والا جلسہ ہوا اور لوگوں نے اپنا دماغ تبدیل کر لیا۔ تو اب یوں ہے کہ پرندے جوق در جوق اترتے ہیں لیکن کھلیانوں میں جگہ باقی نہیں رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان اچھا بچہ بننے کے لیے الیکشن نہیں لڑ رہے تو حکومت میں آنے کے بعد کیا وہ اچھے بچے بن کے رہیں گے؟ اور اگر نہ رہے، جیسا کہ ہر وہ حکمران جسے مینڈیٹ ملتا ہے وہ آہستہ آہستہ گڈ گورننس سے “کرپشن” کے دلدل میں پھنس کے گندا بچہ بن جاتا ہے، تو پھر کیا ہو گا؟ کیا دوبارہ وہی خلا نہیں پیدا ہو جائے گا جسے عمران خان جسٹیفائے بھی نہیں کرنا چاہتے اور جس کے بھرنے کی مجبوریاں بھی انہیں معلوم ہیں؟ ویسے اگر ان کے نزدیک بھٹو صاحب طاقتور اور ان انٹرپٹڈ حکومت چلانے والے راہنما تھے تو خدا کرے کہ ویسی طاقت تحریک انصاف کو بھی مل جائے، ان کھڑکیوں کے پار تماشا کوئی تو ہو۔

ایک جگہ تو عمران خان ایسے پگھلے کہ نواز شریف کی بھی سائیڈ لے لی، لیکن آدھی لی بابو، کہنے لگے، “نواز شریف نے اپنی بہترین کوشش کی کہ وہ انڈیا سے تعلقات بہتر بنا سکیں، میں انہیں کریڈٹ دوں گا، انہوں نے ہر وہ کام کر ڈالا جو وہ کر سکتے تھے، یہاں تک کہ خود مودی کو اپنے گھر بھی بلا لیا، کوئی اس حد تک آگے نہیں جاتا۔” پھر خیال ظاہر کیا کہ “مودی حکومت کی پالیسی شاید ایسی ہے کہ وہ لوگ پاکستان کو اکیلا کرنا چاہتے ہیں، وہ شدید طور پہ اینٹی پاکستان ہیں، وہ کشمیر میں ہونے والے ہر ظلم کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں، تو اب اس رویے کے بعد کوئی کس حد تک دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتا ہے؟” اب یوں ہے کہ فی الحال عمران خان کو نواز شریف کی یاد پہلی بار اچھے لفظوں میں آئی ہے اور فلم تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی۔ تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے، بڑی ہی یادگاری ہو رہی ہے، مرے اندر کوئی لڑ مر رہا ہے، بڑی تخریب کاری ہو رہی ہے!

جہاں عمران خان وہی پرانے والے دکھائی دئیے وہ طالبان سے متعلق ان کا موقف ہے۔ ضرب عضب ہو گئی، رد الفساد ہو گیا، سعودی عرب ماڈرن ہو گیا، روس اور امریکہ کہیں اور الجھ گئے مگر خان صاحب ادھری کھڑے ہیں۔ “دوہری پالیسی ہونی چاہئیے، ڈائیلاگ بھی رہے اور ملٹری ایکشن بھی ہو، (جنگ رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟ پہلا لفظ بدلنے پہ جالب فینز معاف کریں) میں اسی وجہ سے طالبان خان کہلاتا تھا کیونکہ میں ایک سمت والی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتا تھا جو پاکستان نے امریکیوں کے پریشر کی وجہ سے اپنائی۔” پھر انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجوں کی ناکامی کا بتایا۔ ادھر سوال صرف یہ بنتا ہے کہ بھائی کیا یہ پالیسی بحمدللہ کامیاب نہیں ہوئی؟ اگر اب تک اسی چہ کنم چکر میں پھنسے ہوتے تو کیا وہ بہتر ہوتا؟ باس جہاں اتنا مولڈ ہو گئے وہاں تھوڑا سا اس معاملے پہ بھی نرمی دکھا دیجیے، اگر قیادت ہاتھ آ گئی تو کم از کم پیچھے ہٹنے کا کوئی بہانہ ہی سہی، موجود تو ہو گا۔ خارجہ پالیسیاں تو بھئی امریکہ میں بھی سیاسی حکومتیں گھٹ ودھ ہی چلاتی ہیں، تھوڑا ریلیکس کیجیے۔

انٹرویو سائیڈ پہ رکھ کے تھوڑی ضروری بات ہو جائے۔ عمران خان جس مسلک سے بھی ہوں، جس مرضی دربار پہ جائیں، جس کے کہنے پہ جائیں اور چاہے کہیں بھی نہ جائیں، اس بات سے اصولی طور پہ ہمیں کوئی لینا دینا ہونا نہیں چاہئیے۔ پاکستان کا ہر سیاست دان کسی نہ کسی مسلک سے وابستہ ہے، جو سیم عقیدے والے ہیں ان کے لیے تو پرفیکٹ ہو گیا اگر صورت حال اسی رخ پہ جاتی رہی تو باقی پھر اسے کیوں ووٹ دیں گے؟ بچنا چاہئیے اس وقت سے جب ووٹوں کے فیصلے ان اسلحہ بردار تحریکوں کے لیے اسمبلیوں کی سیٹیں نچھاور کریں جو پیدا ہی مسلک کے اختلاف پر ہوتی ہیں اور جن کا ختم ہونا پھر خواب بن کے رہ جاتا ہے۔ جو کسی عفریت کی طرح بار بار نام بدل کے آتی ہیں اور آئین کے نکات (یا ملک بچانے والے؟) کچھ نہیں کر پاتے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain