جمعہ، پھونک اور دریا


کہتے ہیں جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔ میاں صاحب نے اس مقولے پر غور کیا ہوتا تو اپنے گزشتہ دور حکومت میں جمعے کی چھٹی نہ بند کی ہوتی، ہمارے بچپن میں اچھی بھلی روز جمعہ تعطیل ہوا کرتی تھی، سارا جگ مزے سے سو کر اٹھتا سارا دن گھومتا پھرتا، بیویاں شوہروں کو لئے بازاروں میں مٹر گشت کرتیں، اسکول کالج بند، آفس بند، بینک بند اور تو اور عدالتیں بند۔ لو بھلا کیا جی میں آئی جمعہ کی چھٹی بند کر دی، الٹی آنتیں گلے پڑ گئیں۔

اب یہ بات تو ہر کسی کی سمجھ میں آ رہی ہے کہ اگر یہ نا عا قبت اندیش اقدام نہ کیا جاتا تو بروز جمعہ، بتاریخ چھ جولائی تعطیل ہوتی۔ عدا لتیں بند ہوتیں۔ جج صاحبان کی بیگمات ان کو انگلی پکڑائے شاپنگ کر رہی ہوتیں اور جو وہ ذرا سا صد ا ئے احتجاج بلند کرتے کہ بیگم کم شاپنگ کرو تو ایک ہی گھوری پر ڈھیر بھی ہو جاتے لیکن ہائے افسوس شومئی قسمت کہ جمعہ کو ورکنگ ڈے تھا۔ سکول، کالج۔ بینک حتیٰ کہ گستاخی معاف موئی عدالت بھی کھلی تھی۔ بس جی ہونی کو کون ٹال سکا ہے۔

خوشخبری سنانے والے نے اس دن کمرہ عدالت کو اندر سے کنڈی لگوا دی ہمارا تو پہلے ہی ماتھا ٹھنکا کہ ہو نہ ہو فیصلہ نہیں فیصل ہونے کی خوشخبری آنے والی ہے لیکن بس جو ہوا سو ہوا پر یہ ہمیں یقین ہے کہ یار زندہ، صحبت باقی میاں صاحب حیات ہیں تو امید باقی ہے۔ ویسے بھی میاں کے بغیر کوئی امید سے نہیں ہو سکتا۔ تو سب کو امید واثق ہے کہ زندگی نے دوبارہ موقع دیا اور میاں صاحب دوبارہ باپ بنے سوری دوبارہ حکومت میں آئے تو لازمی پہلا ا علان یہی ہو گا کہ جمعہ کی تعطیل منسوخ کی جاتی ہے۔ نہ ہو گا جمعھ نہ ہو گا مو ا فیصلہ۔ سارا بکھیڑا اس مو ئی چھٹی کا ہے۔ پڑوسی ملک کے مشہور اداکار نے بہت پہلے منادی کر کے بتا دیا تھا کہ اس دن کا وعدہ، وفا نہیں ہوتا۔ پتا نہیں کیوں بار بار وہی گانا کانوں میں سیٹیاں بجا رہا ہے ”آج جمعہ ہے“۔

ہمارے ہاں ہلال کمیٹی پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ عید اور جمعہ کی نماز ایک دن میں نہ ہونے پائیں۔ سیانوں نے کہا ہے کہ حکمران پر بھاری ہوتا ہے اب اگر حکمران قوم پر بھاری ہو جائے تو جمعہ کے دن کو عدالتی فیصلوں کے لئے مخصوص کیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ مؤ رخ خاموش خاموش نظر آتا ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد ایک اہم لیڈر نے کہا کہ یہ فیصلہ قوم کی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا، ہم تو سوچ میں پڑے ہیں کہ مؤ رخ کب اتنا خوش حال ہو گا کہ ایک چھوٹا سا کلر پرنٹر ہی خان صاحب کی دکان سے قسطوں پر ہی لے لے اور کلر پرنٹ نکالا کرے۔

عوام بھی سیاہ حروف پڑھ پڑھ کر اوب گئے ہیں کچھ رنگینی آ جائے تو کیا مضائقہ۔ ویسے بھی یہ مورخ کب سے اصل تاریخ نہیں لکھ رہا اس کی پر اسرار خاموش محبّت کو کچھ تو زبان ملے نیا پرنٹر آنے سے کوئی التوا میں پڑے ہوئے نئے نئےمحبّت نامے سوری فیصلے پرنٹ کرے لیکن یہاں ایک قباحت ہے کیوں کہ پرنٹر خان صاحب کی دکان سے قسطوں پر حاصل کیا گیا تھا لہٰذا خوا مخواہ لوگ شک کریں گے بہتر ہے نا دیدہ مخلوق ایک بار ہی یک مشت رنگین فیصلے پرنٹ کرنے والا پرنٹر اڑا لائیں کچھ تو یکسوئی ہو۔

فیصلہ چا ہے کچھ بھی ہو سیاسی وابستگی پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا یہ وہ آتش ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ ویسے عوام تو ویسے ہی ووٹ ووٹ کھیل کر خوش ہوتے رہتے ہیں، ووٹی کا انتخاب تو اوپر والے کر لیتے ہیں۔ عوام ایویں ووٹ دے کر لو میرج کی فیلنگ لے رہے ہوتے ہیں، ہوتی ار ینجڈ ہی ہے وہ اور بات پتہ بعد میں لگتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اصل میں یہ پھونک کا اثر ہے۔ اب اس بات کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ یہاں یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ یہ وہ پھونک نہیں جس سے چراغوں کو بجھایا جاتا ہے یہ وہ پھونک ہے جو لو بڑھانے کو ما ری جاتی ہے۔ دیہاتی خواتین کے پاس پھونک مارنے کے لئے ایک لمبا سا پھکنا ہوتا ہے جس سے وہ ہانڈی کے نیچے پھونکیں مار مار کر لو کو برقرار رکھتی ہیں اور اگر میاں صاحب زیادہ پھڑپھڑاتے نظر آئیں تو اسی پھونکنے کی جلاد پھونک سے ان کی بھی لو کو معقول حد میں لے آتی ہیں۔ سنا ہے خان صا حب آج کل کافی پھونکیں لگوا رہے ہیں ذرا خیال سے، پھونک پھونک میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اہلیہ کی پیار بھری پھونک کی تاثیر الگ ہوتی ہے اور نا دیدہ مخلوق کی پھونک زیادہ بھر جائے تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔

میاں صا حب تو ویسے بھی ”جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ”کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں۔ فیصلے میں قید با مشقت کا ذکر خیر بھی ہے ہمارا تو مشورہ ہے دن میں تین بار سگار والے شیخ صا حب کی تقریر سنا دی جائے تو یہ شرط بھی پوری ہو جائے۔ خاموش محبت کی طرح خاموش صدر صا حب بھی شاید کچھ کام آ جاتے سزا کو کالعدم قرار دے دیتے لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ وہ تو بولتے ہی سال میں ایک دو بار ہیں کیا پتہ ابھی بولنے کا وقت نہ آیا ہو، بولیں نہ بولیں کس کو خبر۔

ابھی خادم اعلی صا حب کو بھی ایک اور مبارک روز جمعہ کو منصف صا حب کے سامنے پیش ہونا ہے۔ منیر نیازی فرما گئے ہیں
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ویسے تو لاہور بھی آج کل دریا سے کم نہیں اور منیر نیازی کی پیش بینی کے ہم قائل ہیں دیکھیں اب خادم ا علی صا حب تیرتے ہیں کہ ڈوبتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).