زنداں میں سچ سے ملاقات کرنے کون آیا؟


سچ: کوئی ہے؟ شاید کوئی نہیں۔ کہاں گئے سب؟ اور زور سے پکارتا ہوں۔ کوئی ہے جو میری آواز سن رہا ہو؟

(مکمل خاموشی)

(سچ خود سے کھیلنے بیٹھ گیا۔ روشن دان سےجو روشنی کی ہلکی سی لکیر آ رہی تھی اس کے سامنے انگلیاں نچا نچا کر کبھی ڈائس پر بجنے والا ہتھوڑا بناتا تو کبھی انٹینے والا ٹی وی۔ کبھی انگلیوں کو اپنے بازو پر رکھ کر اسے حرکت دیتا کہ یوں مانو ہاتھ کمپیوٹر پر کچھ ٹائپ کر رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ روشنی کی لکیر نے جگہ بدلی اور سمٹنےلگی۔

سچ نے چاہا کہ روشن دان کو تھوڑا سا کھسکا کر مزید وا کرے۔

اس کوشش میں سرگرداں سچ کو روشن دان کے پرلی طرف سی یکایک ایک آواز آئی)

آواز: کون ہے اندر؟

سچ: میں ہوں۔

آواز: میں کون؟

سچ: میں سچ۔

آواز: تم سچ؟

سچ: ہاں ہاں میں سچ۔

آواز: تم باہر کیوں نہیں آتے؟

سچ: دروازہ بند ہے۔

آواز: تو کھول لو۔

سچ: باہر سے بند ہے۔ نہیں کھلتا۔

آواز: سچ کی تو صرف ایک پکار ہی کافی ہوتی ہے۔ (زوردار قہقہہ)

سچ: ہاں مگر میری پکار کسی نے سنی نہیں شاید۔

آواز: سنی ہو گی۔

سچ: تمہیں کیسے پتا ہے؟

آواز: ٹوئٹر، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔

سچ: اچھا تو کیا میری پکار سنی لوگوں نے؟

آواز: ہاں آدھے پاکستان نے سنی۔

سچ: پھر؟

آواز: بہرام خان اور گل بکاؤلی نے ٹویٹ بھی کیا تھا۔

سچ: ہاں ٹویٹ میرے تک بھی پہنچی تھی۔ دونوں بیبیوں کی۔

آواز: پھر؟

سچ: بہرام تک تو میری پھر رسائی نہیں ہوئی ٹوئٹر پر۔ مگر گل بکاؤلی سے بات ہوئی تھی۔

آواز: اچھا!!! ہاہاہا۔

سچ: ہنس کیوں رہے ہو بھیا؟ میں یہاں قید ہوں اور تم ہنسے جا رہے ہو۔

آواز: ہنسوں نہیں تو کیا کروں۔ گل بکاؤلی کی تو مجھے اطلاع ہے کہ اس نے تجھے بلاک کر دیا ہے فون اور واٹس ایپ پر۔

سچ: (افسردہ آواز میں) اوہ۔ وہ کیوں؟

آواز: اس نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ میرا کام صرف ٹوئٹ کرنا ہے سچ تک پہنچنا نہیں۔

سچ: اوہ اسی لیے میں ابھی تک قید ہوں۔

آواز: نہیں تو نہ صرف اس لیے قید نہیں ہے کہ تجھے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ تو کمزور ہے۔

سچ: یہ کیا بکواس ہے کہ میں کمزور ہوں۔ تمہیں نہیں پتا کہ سچ کتنا طاقت ور ہوتا ہے۔ تم میری توہین کر رہے ہو۔

آواز: اچھا! سچ کی بھی کوئی عزت ہے سچ بتانا۔

سچ: ہاں ہے۔ (مردنی سے آواز میں)

آواز: تبھی تم قید ہو یہاں۔ اور اس سے پہلے بھی تمہیں یاد تو ہو گاکہ سچ بے چارہ کتنی بار زہر پی کر یا سولی چڑھا کر یا اور کئی طریقوں سے مارا جا چکا ہے۔ بے عزتی کی موت۔

سچ: (مرجھائی آواز میں) ہاں معلوم تو ہے۔

آواز: اچھا تمہاری غذا کیا ہے؟

سچ: یہ کیسا سوال ہے؟

آواز: بتاؤ تو سہی۔

سچ: میں بس صفحے کھاتا ہوں۔ اور آج کل تو وہ بھی نہیں مل رہے اس کوٹھڑی میں۔

آواز: یعنی تو بھوکا بھی ہے؟

سچ: ہاں مگر یہاں بدبو بہت ہے۔ لگتا ہے کئی گلی سڑی لاشیں پڑی ہیں۔ اس تعفن نے میرا دماغ سن کر رکھا ہے۔ دل متلا رہا ہے۔ اگر اب کوئی صفحہ کھایا بھی تو لگتا ہے الٹی ہو جائے گی۔

آواز: تو اسی لیے روشن دان کے پاس ٹکے رہتے ہو؟

سچ: ہاں تاکہ باہر سے تازہ ہوا ملے۔ مگر باہر سے جو ہوا آ رہی ہے وہ زہریلی ہے۔ میرے اعصاب شل کر رہی ہے۔

آواز: ہاں اس ہوا میں زہر ملا ہوا ہے بھولے۔

سچ: (طنزیہ لہجے میں) مگر کیوں؟ کس نے ملایا ہے زہر ہوا میں؟ دنیا ختم ہو جائے گی۔ روکو اس زہر کو مزید پھیلنے سے۔ تم بھی مر جاؤ گے۔

آواز: جب مروں گا تب۔ ابھی تو عیش ہیں بھیا۔

سچ: اس زہریلی ہوا میں کیسا عیش؟

آواز: میں بھی کاغذ کھاتا ہوں۔

سچ: (حیرت سے) اچھا تمہاری اور میری غذا ایک ہی ہے۔ پھر تو ہم دوست ہوئے۔ تم میرے جیسے لگتے ہو۔

آواز: لگتا ہوں۔ پر ہوں نہیں۔

سچ: تمہیں سب پتا ہے۔ بول بھی رہے ہو۔ غذا بھی میرے والی ہے پھر میرے جیسے صرف لگتے کیوں ہو؟ اصل میں کیوں نہیں ہو۔

آواز: میرے پاس طاقت ہے۔ میرا طوطی بولتا ہے ہر طرف۔ میں پیسہ خرچ کرتا ہوں۔ اپنے لیے ہوا سازگار بنا لیتا ہوں۔ میں صفحے کو صحیفہ بنا کر بیچ دیتا ہوں۔ میں کامیاب بیوپاری ہوں۔

سچ: میں تو بس اپنے دل کو جلا کر روشنی کرتا ہوں۔ اس روشنی میں اپنے لہو سے اپنی کھال کے بنے کاغذ پر جو دیکھتا ہوں لکھ دیتا ہوں (کھوں کھوں کھوں) میرا دم گھٹتا رہتا ہے۔

آواز: تمہارا دم اسی طرح گھٹتا رہے گا۔

سچ: نہیں میں کھل کر سانس لوں گا۔

آواز: سقراط نے بھی شائد مرنے کے بعد کھل کر سانس لی ہو۔ منصور نے بھی۔ تم بھی لے لینا۔

سچ: میں سچ ہوں۔ میں نہیں مروں گا۔ میرا صرف جسم مرے گا۔

آواز: ابھی تو قید ہو۔ بھگتو۔ کاغذ تمہاری اپنی کھال ہے۔ اس پر گزارہ کرو۔ تعفن برداشت کرو۔ میں چلا۔ اپنے مہکتے عشرت کدے کو۔ کبھی میری چاہ ہو تو بلا لینا مجھے۔ میرے ہمنوا میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میرے احباب کی محفل عروج پر ہو گی میرے عیش کدے پر اور میں تم سے بے کار میں باتیں کرتا رہا۔

سچ: مگر میری آزادی؟

آواز: میں نہیں دلا سکتا۔ بلکہ کوئی اور اب اس روشن دان کی جانب بھی نہ آئے شائد۔ اگر انہیں معلوم پڑ گیا کہ اندر تم ہو۔

سچ: اچھا دوست۔ اپنا نام تو بتا کر جاؤ۔ کہ اتنے عرصے بعد کوئی مجھ سے بولا۔ مجھے وقت دیا۔

آواز: میرا نام جھوٹ ہے۔ اور میں سربلندی کا ضامن ہوں۔

یہ سن کر سچ نے ایک بار پھر ہمت کی اور اپنے بدن کی بچی کھچی کھال کھینچی اور لہو میں ڈبونے بیٹھ گیا۔ اچانک اسے یہ ادراک ہوا کہ یہ جو کوٹھڑی میں تعفن ہے۔ یہ اس سچ سے اٹھ رہا ہے جسے ملامتوں سے مارا جاتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).