مجھے اب عمران خان کو ووٹ نہیں دینا


5 سال پہلے مئی 2013ء میں جب یہ واضح ہو گیا کہ پی ٹی آئی اقتدار نہیں سنبھال رہی تو بہت سے اور ووٹروں کی طرح میری بھی مایوسی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ شاید ہم سب کی توقعات ضرورت سے زیادہ اونچی تھیں۔ نون لیگی پیروکاروں نے فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی والوں کو لتاڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے کچھ ان کو جواب دینے کے لئے اور کچھ اپنی مایوسی کا ازالہ کرنے کے لئے ایک بلاگ لکھا۔ ” الیکشن کو گزرے پورے 3 دن ہو گئے لکن دل کا بجھنا ختم ہی نہیں ہوتا۔ دل کو تسلی دے کر پھر کام شروع کرتی ہوں۔ پھر کسی کالم کو پڑھنے پر وہی کیفیت! دکھ ہارنے کا نہیں، ہار جیت تو زندگی کا حصہ ہے۔۔۔دکھ تو اس رویے کا ہے جو الیکشن کے بعد سے چلا آ رہا ہے اور اس کو دیکھ کر احساس ہوتے ہے کہ تبدیلی آنا تو دور کی بات ہم اس کے آس پاس بھی نہیں ہیں۔

عمران خان کے ووٹر کون لوگ تھے اس بارے میں لوگوں کی مختلف آرا ہیں لکین شاید سب سے زیادہ اہمیت ان آرا کی ہے جو کہ پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے، اخبار میں لکھنے والوں کے طرف سے آتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو پڑھنے والے اور سچا سمجھنے والے بہت لوگ ہیں۔ اور ان کو پڑھ کر احساس ہو تا ہے کہ بہتری کی تو قع رکھنا ہی فضول ہے۔ اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہونے کا تو سوال ہی نہیں یہ تو ذہنی پسماندگی ہے جس کا علاج تعلیم بھی نہیں کر سکتی۔ بڑے آرام سے عمران خان کے ووٹر کو ممی ڈیڈی طبقہ، مراعات یافتہ طبقہ، اور برگر فیملیز قرار دیا جاتا ہے ہاں میں بھی عمران خان کی ووٹر ہوں۔۔ میں برگر فیملی سے ہوں؟

اچھا سوال ہے۔۔۔ شاید اس سے پہلے مجھے پوچھنا چاہیے کہ برگر فیملی کیا ہوتی ہے۔ کیا ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی میں پڑھ لکھ کر آگے بڑھنے کو ضروری سمجھا؟ ہم نےاور بہت سے اورلوگوں نے اور ان کے ماں باپ نے حلال طریقے سے پیسے کما کر اپنی زندگی تھوڑی بہتر بنا لی؟ ہاں ہم وہی ہیں۔۔۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اس پر شرمندہ رہیں؟ کیوں کہ اس ملک کے آدھے سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ کیا ہمیں واقعی شرمندہ ہونا چاہیے کیوں کہ ہم نے عمران خان کو ووٹ دیا اور ہم نچلے طبقے کے مسائل کو سمجھتے نہیں؟ کیا ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے کیوں کہ ہمیں زندہ رہنے کےلئے ہر مہینے حکومت کی طرف سے ایک وظیفے کی ضرورت نہیں؟ مجھے کہنے دیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اقتدار میں نواز شریف صاحب ہوں یا بینظر کی جماعت۔۔۔ کیوں کہ ہم بھیک پر نہیں، اپنے بل بوتے پر زندگی جیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے محنت کی ہے، ہمارے ماں باپ نے محنت کی ہے۔۔۔۔

تو پھر ہمیں کیا فرق پڑسکتا ہے۔۔ کیوں کہ ہمارے پاس تو کھانے کو ہے۔ اور حکومت بدلنے سے ہمیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ تو ہم پھر ووٹ دینے باہر کیوں آئے؟۔۔۔ تو مجھے بتانے دیجے کہ ہم ملک کے حالات پر کڑھنے والے لوگ ہیں۔۔ ہم لانگ ٹرم سوچنے والے لوگ ہیں۔۔۔ اگرچہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اقتدار میں ہے لیکن ہم ووٹ دینے اس لئے باہر آئے کیوں کہ اس ملک کے باقی 80 فیصد لوگوں کو فرق پڑتا ہے اور وہ۔۔۔ مجھے دکھ ہے کہتے ہوئے۔۔۔ وہ بد قسمتی سے اپنا اچھا برا نہیں سجھتے۔ وہ اس بچے کی طرح ہیں جس کو آوارہ گردی کرنا اسکول جانے سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور جو آوارہ گردی میں ساتھ دے وہ زیادہ اچھا لگتا ہے نہ کہ ماں باپ جو اسکول نہ جانے پر ڈانٹتے ہیں۔۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اپنا اچھا برا نہیں سمجھتے، مستقبل کا نہیں سوچتے۔ جی ہاں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بجلی گھر بنانا زیادہ ضروری ہے نہ کوئی سولر لیمپ بانٹنا۔۔۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم عام کرنا زیادہ ضروری ہے نہ کہ دانش اسکول بنانا اور لیپ ٹاپ بانٹنا۔۔۔۔ جی ہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لاہور پنجاب کا ایک حصّہ ہے پنجاب نہیں کہ 80 فیصد بجٹ اس کی بسوں پر لگا دیا جآئیے۔۔۔

جی ہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میٹرو بس، لیپ ٹاپ، انکم سپورٹ اور سولر لیمپ سے ملکوں کی تقدیر نہیں بدلتی۔ ملکوں کی تقدیر لوگوں کو بھکاری بنانے سے نہیں بدلتی۔ ہمیں ان سب اسکیموں سے فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ہم بس پرسفر نہیں کرتے۔۔ نہ ہم لیپ ٹاپ مانگتے ہیں۔ نہ ہمیں انکم سپورٹ چاہیے۔۔ لیکن ہم پھر بھی باہر آئے ہیں ووٹ دینے۔۔۔ تاکہ ملک کے باقی 80% لوگوں کی تقدیر بدل سکے۔۔۔۔ مجھے کہنے دیجیے کہ میرا اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا ووٹ 2000 روپے یا 200000 روپے کا نہیں بکتا۔۔ میرا ووٹ بریانی کی ایک پلیٹ اور 500 روپے کا محتاج نہیں ہے۔۔ میرا ووٹ کسی کے گن پوائنٹ پر نہیں ڈلتا۔ میرا ووٹ ملک کے لیے ہے۔اور میرا ووٹ پسے ہوے 80 % لوگوں کے لئے ہے جو کہ پس رہے ہیں اور جو پستے رہیں گے کیوںکہ ان کی امیدیں غلط لوگوں سے وابستہ ہیں۔۔۔۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2