میاں نواز شریف سے کیا غلطیاں ہوئیں؟


الیکشن 2013ء سے قبل آپ کا ایک ہی نعرہ تھا کہ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی ختم کر یں گے۔ دونوں پر تماشاعام ہوا۔ لوڈ شیڈنگ میں زبردست کمی کے باوجود معاملہ منظم منصوبے کے تحت متنازع بنایا جا رہا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کا سارا کریڈٹ کوئی اور لے جا رہا ہے؟ آپ کے پاس ایک اور موقع اس وقت آیا جب پانامہ کی آڑ میں اسلام آباد پر پھر دھاوے کا اعلان ہوا۔ اس وقت بھی بعض سخت فیصلے لے کر سٹینڈ لیا جا سکتا تھا۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا جو اب نکل رہا ہے۔ افسوس وہ موقع بھی ضائع کردیا گیا۔ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں آپ کی پورے خاندان سمیت جو درگت بنائی گئی اس کا تماشا پوری دنیا نے دیکھا ۔ نااہلی کے بعد فارغ کیا گیا تو قوم سڑکوں پر امڈ آئی۔ آپ کے قریبی جاننے والے کہتے ہیں کہ اس موقع پر بھی آپ کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے یا تساہل کا شکار تھے۔

سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو آﺅٹ کرنے کے لیے بلوچستان اسمبلی میں راتوں رات لگائی جانے والی نقب نے احتجاج کا بہت جائز اور جاندار موقع فراہم کیا۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پارٹیوں نے کھل کر اس افسر کا نام بھی لے دیا تھا جس نے یہ سارا عمل اپنی نگرانی میں مکمل کرایا۔ اگر اسی وقت صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج یا دھرنے کا اعلان کر دیا جاتا تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو جانا تھا۔ حکومت جیسے تیسے اپنی مدت مکمل کر چکی تھی، اگر کسی ناخوشگوار واقعہ کے نتیجہ میں باقاعدہ مارشل لاء بھی لگ جاتا توشریف خاندان کے ساتھ اس سے زیادہ برا کیا ہونا تھا جو اب ہو رہا ہے۔ جان کوخطرہ جتنا پہلے تھا اتنا اب بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ جو کرنے والی تھی وہ دیوار پر لکھا نظر آ رہا تھا۔ آپ اپنے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ذریعے بھی بعض بڑے فیصلے کر سکتے تھے مگر نہین کر سکے۔

2014ء کے دھرنوں کے بعد سے سول حکومت کے معاملات میں ریاستی اداروں کی مداخلت اس حد تک بڑھ گئی کہ انتظامیہ عملاً بے اختیار اور معطل ہو کر رہ گئی۔ اعلیٰ عدالتیں یوں متحرک کردی گئیں کہ اب وہ نہ صرف جگہ جگہ چھاپے مار کر احکا مات جاری کر رہی ہیں بلکہ اپنے بلند بانگ بیانات سے قوم کو نئی سیاسی راہ معین کرنے کا راستہ بھی دکھا رہی ہیں۔ جس کو چاہا بر طرف کردیا جسے چاہا باہر نکال پھینکا۔ یہ طے ہے کہ اگلی حکومت خواہ کیسی بھی ہو تمام ریاستی اداروں کے ماتحت ہو گی۔ وزیر اعظم کی حیثیت ایک انڈر سیکرٹری سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ شہبازہو یا عمران، نثار ، بلاول یا سنجرانی نما کوئی شخصیت جو بھی آئے گا ہاتھ باندھ کر پیچھے پیچھے چلے گا۔ لوگ ماتحت ترین وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کا دور بھی بھول جائیں گے۔

سول حکومت کو اس درجہ نیچے لانے میں جن عوامل نے کام دکھایا ان میں ایک بڑا فیکٹر آپ کے غیر واضح فیصلے ہیں۔ آپ کے چکر میں پوری سول حکومت ہی زمین بوس ہو چکی۔ اگلے عام انتخابات کوئی بھی جیتے سول حکومت کے وقار اور اختیارات کی بحالی کیلئے بھرپور لڑائی لڑنا ہوگی۔ مزاحمت کی سیاست صر ف ضرورت ہی نہیں بلکہ نا گزیر ہو چکی ہے۔ میاں صاحب سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آپ دیگر جماعتوں کو تو کیا خود اپنی پارٹی کے کارکنوں کو ساتھ لے کر نہیں چلے۔ آپ پاکستان آئیں اور جانشین بیٹی سمیت جیل جائیں تو یہ ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں ۔ سلاخوں کے پیچھے آپ کی موجودگی مزاحمت کی سیاست کے دئیے کو روشن رکھ سکتی ہے اور حالات کا دھارا اسے کسی بھی وقت بڑی تحریک میں تبدیل کرسکتا ہے۔

اب تو یہ تو پتہ چل ہی گیا ہو گیا کہ ابھی آپ نے زیادہ کچھ نہیں کیا تب بھی آپ کی جماعت کو ہرانا تقریباً نا ممکن ہوگیا تھا۔ پارٹی سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بردار لوٹے نکال کر پی ٹی آئی میں شامل کرائے گئے۔ آخری وقت پر ٹکٹ واپس کرا کے جیپ گروپ آگے لایا گیا۔ انتخابات ملتوی کرانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ پولنگ ڈے پر دھاندلی کی جائے کیونکہ حسن منشا نتائج کی راہ میں صرف آپ کی پارٹی حائل ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر آپ نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو متحرک رکھا ہوتا، رابطوں کا سلسلہ دوسری سیاسی جماعتوں تک بڑھایا ہوتا تو آج کیا ماحول ہوتا۔ واپس آنے سے پہلے ہی اپنا پلان آپ اپنے ساتھیوں پر واضح کردیں۔ وقت کا پہیہ پیچھے نہیں گھوم سکتا۔ آپ کی پارٹی اور اس کے باہر ہم خیالوں کے لیے یہ موقع ہے کہ بیانیہ کو آگے بڑھائیں ۔ الیکشن 2018ء مکمل طور پر متنازع ہو چکے۔ ان میں بھر پور حصہ لینے کے بعد اپنی اگلی حکمت عملی کا اعلان کریں اور عمل پیرا بھی ہوں۔ چاہے آپ کے بیانیے کے ساتھ سو پچاس لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ شروع تو کرنا ہے، مشکلات لازماً آئیں گی مگرسامنا کرنے والے وقت کے پنجے کی طاقت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ میاں صاحب بہادروں کا اپنا مقام اورعزت ہوتی ہے۔ جان جانے کا ایک وقت مقرر ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔

رائٹ ونگ کے ساتھ اپنے ذہنی، قلبی اور عملی تعاون کے باوجود مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ چھوٹے قد اور دبلی جسامت والی عاصمہ جہانگیر سے وہ لوگ بھی خوفزدہ تھے جو سمجھتے ہیں کہ شاید پوری دنیا ان سے ڈرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2