چڑھ جا سولی، رام بھلی کرے گا


میاں نواز شریف گزشتہ کئی برس سے بزعم خود ایسا لیڈر تصور کئے ہوئے ہیں کہ ان کا نام تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھا جائے اورخود کو طیب اردگان، مہاتیر محمد اور نیلسن مینڈیلا سے کسی طور کم نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ محکمۂ زراعت والوں نے جس پودے کو خود اپنے ہاتھوں سے سینچا ہو، جس کی خود آبیاری کی ہو، جسے مخصوص کھاد کی عادت ڈالی ہو، جس کی آب و ہوا کا خاص خیال رکھا ہو، جس کو اپنے سائے میں پروان چڑھایا ہو تو ایسے ’’بے بی پلانٹ‘‘ کو وہ کیسے جڑیں مضبوط کرنے دیں۔

ہمارے بھولے میاں صاحب یہ نہیں جانتے کہ محکمۂ زراعت کے گملے میں کئی سال تک پنپنے والے پودے کو تناور درخت بننا نصیب نہیں ہوتا۔ اگر غلطی سے باہر کی موافق ہوا اور خودی کی کھاد سے تناور درخت بننے کا مرحلہ درپیش ہو ہی جائے تو ایسے درخت کو جڑوں سیمیت اکھاڑنے کے لیے منہ زور آندھیاں چلانا پڑتی ہیں۔ کبھی تیز طوفانوں کا بندوبست کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی تند و تیز سیلاب کے ریلے بہانے پڑتے ہیں اور پھر ایسے تناور درخت کا جڑوں سمیت زمیں بوس ہونا مقدر ٹھہرتا ہے۔

ہمارے تجربہ کار اورمتعدد بار وزارتِ عظمی سے ڈسے ہوئے سابق وزیرِ اعظم آج تک یہ نہ سیکھ پائے کے حکومتی مدت کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سیاسی شعبدہ بازیوں کے علاوہ کچھ عقل و خرد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے بڑھک فیم اداکار مظہر شاہ کی طرح یہ بھی بے وقت بڑھک مار دیتے ہیں۔ جب بھی انہیں سادہ اکثریت ملی یہ اسی کے خمار اور خوش فہمی میں مبتلا ہو کر ایسا کچھ کر بیٹھتے ہیں کہ حکومتی مدت کے وقتِ عصر پر روزہ توڑ بیٹھتے ہیں اور انہیں وزارتِ عظمی سے ایسے نکال دیا جاتا ہے جیسے دودھ سے مکھی۔ ڈان لیکس کا خمیازہ ہو، پانامہ پیپرز کی مصیبت ہو یا پھر ٹویٹ کی واپسی یہ سب کام ترنگ میں آ کر بیٹھے جس سے نہ صرف خود بلکہ ان کی جماعت کو بھی اس کے خوفناک نتائج بھگتنے پڑے۔

نواز شریف اس بار بھی اسی خوش فہمی میں رہے کہ اس دفعہ ان کے ساتھ گزشتہ ادوار کی طرح کی کچھ نہیں ہونے لگا وہ اپنی آئینی میعاد پوری کریں گے شومئی قسمت ان کے ساتھ پھر انہونی ہو گئی جب دو چار ہاتھ لبِ بام رہ گئے۔

تیسری بار وزارتِ عظمی کی مدت پوری کر تے اور چوتھی بار کا خواب دیکھتے ہوئے ہمارے مغل فیم حکمران نواز شریف خمارِ حاکمیت میں شاید اس بار دستی بم کو لات نہ مارتے مگر ان کے حواری پرویز رشید اینڈ کمپنی اور خاص طور پر ان کی سپتری مریم نواز کا ڈان لیکس والا واقعہ ظہور پذیر ہو گیا۔ ان سب کا اس میں نام کیا آیا کہ ان کا بیانیہ ہی تبدیل ہو گیا سبھی نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے انہیں بلی پہ چڑھانا شرو ع کر دیا اور ایسے میں یہ سب افراد اسٹیبلشمنٹ سے پیچھا چھڑانے کے درپے ہو گئے۔

اسی دوران پانامہ کا اسکائی لیب دھڑام سے ان پر آن گرا۔ اس قضیے سے میاں صاحب نے جان چھڑانے کے لیے بہت سے پینترے بدلے کبھی قوم سے خطاب کبھی اسمبلی میں ذرائع خرید دینے کے اعلانات کبھی ٹی او آر بنانے کے بہانے مگر عمران خان نے انہیں اس جال سے باہر نکلنے نہ دیا۔ بالآخر سپریم کورٹ کو یہ کیس سننا ہی پڑا۔ جب سپریم کورٹ سے وزاتِ عظمی سے چھٹی اور نا اہلی کی سند حاصل ہو گئی تو میاں صاحب اس وقت تک رسی تک پہنچ ہی گئے تھے جہاں انہیں مزید جھولنا تھا۔

جب میاں صاحب ایسا تناور درخت دھڑام سے گرا تو انہوں نے اسی تنے پراپنے جی ٹی روڈ والے جارحانہ بیانے کا انقلابی اور نظریاتی پھریرا لہرا دیا ابھی یہ پھریرا لہرانا ہی شروع ہوا تھا کہ مسلم لیگ کی صدارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے یوں یہ پھریرا کم اور دھجیوں کی شکل زیادہ اختیار کر گیا اورپھر احتساب عدالت میں ایون فیلڈ کیس تقریباً نو ماہ چلنے کے بعد جب فیصلہ آیا تو اس کی رو سے باپ بیٹی اور داماد کو بامشقت قید کی سزا اور جرمانوں کا اعلان ہوا۔ تب سے میاں صاحب یہ سوچ رہے ہیں مجھے کس کس نے اس راہ پر متعین کیا ہے؟

میاں صاحب کو مشورے دینے والے افراد کی کمی نہیں شنید ہے کہ گزشتہ دنوں آصف زرداری سے بھی ایک مبینہ خفیہ ملاقات ہوئی ہے جس میں انہیں مشورہ دیا گیا کہ میاں صاحب ڈٹ جائیں۔ حالاں کہ خود اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہہ کر ملک سے واپس اس وقت تک نہ آئے، جب تک معافی تلافی نہ ہوگئی۔ اس مبینہ ملاقات کے اثرات یہ ہوئے کہ میاں صاحب کا لہجہ تو سخت ہو ا ہی پر صاحب زادی کا اور زیادہ کرخت ہو گیا۔

میاں صاحب کو جب بھی ہواؤں میں اڑتا دیکھتے تو بچپن کے وہ دن یاد آ جاتے جب بچوں کے پاس کوئی خاص کھیل کھیلنے کے لیے نہیں ہوتے تھے۔ لاہوری بچے گلی محلوں میں نلکے یا پانی کے قریب پائی جانے والی پیلے رنگ کی بِھڑ (جسے پنجابی میں بھونڈ کہتے ہیں) پکڑ کر پہلے تو اس کا ڈنک نکالتے پھر دھاگے سے باندھ کر ہواؤں میں اڑاتے ہوئے خوب مزے لیتے جیسے ہی وہ تھوڑی سی اوپر جاتی دھاگا کھینچ کر نیچے لا کر اس کی اڑان ختم کر دیتے۔ سو میاں صاحب کے حالت بھی ان کے تینوں ادوار میں کچھ اسی قسم کی دکھائی دیتی رہی۔

میاں صاحب اب قید و بند؛ شاید وہ بھی بامشقت میں، یہی سوچیں کہ ہمارے حواریوں اور بہی خواہوں کو ہم سے کیا دشمنی تھی جو ہمیں الٹے سیدھے مشورے دیتے رہے اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ ’’چڑھ جا بیٹا سولی، رام بھلی کرے گا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).