ملتان : پاکستان کی شان جسے نظر انداز کر دیا گیا


چندروز پہلے ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں یورپ کی سیر سے واپس لوٹا تھا۔ گپ شپ میں اُس شخص نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ اُس کے مطابق وہ اٹلی کے ایک مشہور میوزیم میں گیا۔وہاں اُسکی ملاقات کسی یورپی سکالر سے ہوئی۔اپنا تعارف کراتے ہوئے اس شخص نے بتایا کہ اُسکا تعلق پاکستان کے شہر ملتان سے ہے تو یورپی سکالر نے اسکا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔اُسکے لبوں پر بار بار” ملتان” کا نام آیا۔اُس نے بتایا کہ اُسے ملتان دیکھنے کی بہت حسرت ہے کیونکہ قدیم ترین تہذیب کا یہ واحد زندہ شہر ہے۔ ملتان روئے زمین پر ابتدائی طور پر قائم ہونے والی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر طوفان نوح کے وقت بھی آباد تھا۔ جناب منشی عبدالرحمن صاحب مرحوم کی” تا ریخ ملتان ذیشان” کے مطابق “دنیا کے اس خطے میں ملتان روئے زمین پر وہ پہلی آبادی تھی جسے اولاد آدم نے اپنا مسکن بنایا۔ جنت بدرہونے کے بعد حضرت آدم جزیرہ سراند یپ (سری لنکا ) ،حضرت حّواجّدہ ،شیطان ملتان ،سانپ ایران اور مور ہندوستان میں اترا”۔اس لحاظ سے تو روئے زمین پر شیطان کا نزول بھی اسی خطے کا مقدر بنا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق شیطان مردود ملتان آمد کے بعد مظفر گڑھ بھی گیا اور علاقے کی تفصیلی سیر بھی کی ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ شیطان نے ہی اولاد آدم کی آبادکاری کے لئے اس علاقے کا انتخاب کیا ہوکیونکہ دونوں کی دشمنی کی ابتدا تو روز اول سے ہی ہو گئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے۔

Multan in 1900s

اس دن سے لے کر آج تک دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہیں۔اب تو دونوں میں کسی حد تک بقائے باہمی کا سمجھوتہ نظر آتا ہے کیونکہ شیطان کی بہت ساری چیزیں انسان نے تہذیب اور کلچرکے نام پر مان لی ہیں لیکن اس دور میں چونکہ نئی نئی دشمنی تھی تو یقینا شیطان کی نیت میں کچھ نہ کچھ خبیثانہ سوچ ضرور ہوگی۔ بہرحال شیطان کی نیت جو بھی تھی اللہ تعالی نے اس علاقے کو اپنی بے پایاں نعمتوں سے نوازا۔ اسے علم و ہنر اور پاکیزگی کا مرکز بنا دیا۔ ہندوﺅں کی مقدس ترین کتاب “رگ وید” دنیا کی قدیم ترین کتاب مانی جاتی ہے۔ یہ مقدس کتاب اسی علاقے کے دریاﺅںکے کناروں پر بیٹھ کر لکھی گئی تھی جس کا زمانہ 8ہزار سال قبل مسیح تھا۔قدیم ہندودور میں تو اس کی حیثیت ہندووں کے لئے مکہ کی سی تھی ۔ہندو عقیدے کے مطابق یہاں کئی ہندو دیوتا آئے جن کے متبرک مقامات کے شواہدتا حال موجود ہیں۔ یہاں بہت سے مقدس مندر تھے لیکن سب سے مقدس ” سورج مندر اورپر ہلاد مندر” تھے جہاں” سورج دیوتا اور ادیتہ دیوتا”کے سونے کے بنے بت رکھے تھے۔ ان کی زیارت کے لئے ہندوبر ما اور بعد میں مصرتک سے پیدل چل کر آتے تھے اور زروجواہر کے چڑھاوے چڑھاتے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر “سونے کا گھر” کہلانے لگا۔ اس شہر کی امارت ہی حملہ آوروں کے لئے سب سے بڑی کشش تھی اور تقریباًً تقریباًً تمام بڑے جنگجو اس شہر پر حملہ آور ہوئے جن میں ایرانی بادشاہوں کے علاوہ سکندر اعظم ، عرب جنگجو، تاتاری اور افغان سب شامل تھے۔

Multan in the Early 1930s

کہتے ہیں جب محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا تو ادیتہ دیوتا کے تہ خانے سے تیرہ ہزار دو سو من سونا ملا۔ہیرے جواہرات اس کے علاوہ تھے۔ مکہ کی طرح یہ دنیاکا شاید واحد شہر ہے جو روزاول سے ہی مقدس رہا ہے اور مسلمان دور سے تو یہ” مدینۃ الاولیا” کہلایا کیونکہ یہ شہر کئی صاحب مرتبہ اولیاءکرام کا مسکن ہے۔یہ شہرصدیوں سے علم و فضل کا گہوارہ بنا رہاحتیٰ کہ برصغیر کی پہلی یونیورسٹی کے قیام کا اعزاز بھی ملتان ہی کو حاصل ہے جو 1470 کی دہائی میں سلطان حسین لنگاہ نے قائم کی۔ملتان کا قدیم نام میسان بتایا جاتا ہے۔ بعد میں ہندوراجاﺅں کے دور حکومت کے ساتھ ساتھ یہ نام بھی بدلتا رہا مثلاًکشپ پور،پرہلادپورہ، سنب پورہ ہنس پور،بھاگ پور اور مول استھان کہلایا۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کسی دور میں یہاں مالی، ملی یا مول نامی قوم آباد تھی جس وجہ سے یہ مول استھان بنااور پھر ملتان بن گیا۔ ملتان کسی دور میں ایک بہت بڑی سلطنت تھی جو گردش زمانہ سے سکڑ کر صرف ملتان شہر تک محدود ہو گئی۔ سرزمین ملتان کو تین عظیم الشان بادشاہوں یعنی سلطان محمود تغلق ،سلطان بہلول لودھی اور سلطان احمدشاہ ابدالی کے مولد ہونے کا بھی فخر حاصل ہے۔ ان عظیم بادشاہوں کی جائے پیدائش کے علاوہ مغل اعظم جلال الدین اکبر کے نورتنوں میں سے ابوالفضل اور فیضی کا تعلق بھی ملتان ہی کے مضافاتی علاقے سے تھا غالباً موجودہ رحیم یارخان سے۔

ملتان کے حوالے سے ویسے تو بہت سے غیر معمولی واقعات مشہور ہیں ۔کشت و خون کی بھی کئی داستانیں ہیں لیکن تین واقعات ایسے ہیں جو قارئین کےلئے یقینا باعث تعجب اور باعث دلچسپی ہونگے۔ پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ سر زمین ملتان پر کسی دور میں راجہ ہرنا کشپ نامی شخص حکومت کرتا تھا جس نے خدا ہونے کا دعویٰ کر کے دیوتاﺅں کی پوجا سزا قرار دے دی۔ اُسے ختم کرنے کےلئے “وشنو بھگوان” کو خود زمین پر آنا پڑا۔ دوسرے واقعہ کا تعلق مغل شہزادہ جہانداد سے ہے جو یہاں 1711 میں ملتان کا گورنر تعینات ہوا۔یہ وہ دور تھا جب مغل اہل سیف سے اہل کیف بن چکے تھے۔ یہاں وہ ایک مشہور طوائف کنور لال مراثن کے عشق میں گرفتار ہوا۔ایک سال بعد 29مارچ 1712 کو وہ شہنشاہ ہند بن گیا۔ بادشاہ سلامت نے پہلا کارنامہ یہ کیا کہ اس طوائف کو دلی بلا کر اس سے شادی کر لی اور یوں یہ طوائف ملکہ ہند بن گئی۔یہ عشق صرف شادی پر ختم نہ ہوابلکہ اس طوائف کے بھائی نعمت خان مراثی کو ملتان کی گورنری بخش دی گئی۔

muharram multan 1930

تیسرے واقعہ کا تعلق سکھوں سے ہے۔ جب سکھوں نے 1818 میں ملتان فتح کیا تو اس وقت سدو زئی خاندان کا فرد نواب مظفر خان یہاں کا حکمران تھا۔ ایک “دلومل” نامی شخص نواب صاحب کا ادنی ملازم تھاجو نواب صاحب کی جوتیاں اٹھاتا اور اس کے لئے چلمیں بھرتا۔ دلو مل کا بیٹا” کوڑا مل” بھی باپ کی طرح نواب خاندان کا ادنیٰ ملازم بنا لیکن تھا بڑا تیز طرار۔ سکھوں نے اس شخص کو ملتان کا حاکم بنا دیا۔پھر جو کچھ ہوا سوچا جا سکتا ہے۔

ایسے نظر آتا ہے کہ تاریخ پاکستان بھی تاریخ ملتان کا ہی تسلسل ہے ۔وہ یوں کہ شیطان مردود یہاں سے واپس جانے کے بجائے یہیں کہیں آباد ہو گیا اور اب سارا پاکستان اس کے شکنجے میں ہے۔ دوم یہ کہ راجہ ہرنا کشپ کی روح بھی یہیں کہیں بے چین پھرتی ہے جس وجہ سے ہماری تاریخ میں بھی چھوٹے بڑے کئی خدائی دعویدارپیدا ہو گئے ہیں۔ان خداﺅں نے اب بھتہ خوروں ، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلرز اور چور ڈاکوﺅں کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ موجودہ دور میں وشنو بھگوان تو اترنے سے رہے لیکن ایسے لوگوں کے خاتمے کے لئے معلوم نہیں رب العالمین کی رحمت کب جوش میں آئیگی۔سوم یہ کہ مغل شہزادوں کی روایات ختم نہیں ہوئیں بلکہ جمہوریت کے نام سے جاری ہیں۔مغل شہزادے تو یہاں سے لوٹ مار کر کے یہیں خرچ کرتے تھے۔ ہمارے جمہوری شہزادے کھل کر لوٹتے ہیں اور بیرون ملک جمع کراتے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف 415 پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں 83 کھرب روپے موجود ہیں ۔آخر یہ کہ ماضی کی طرح ہمارے اقتدار کے ایوانوں کی رونقیں ” شہزادے جہاندادوں اور کوڑے ملوں ” کے دم سے ہی قائم ہیں ۔صرف اتنی سی یاد دہانی مقصود ہے کہ وہ مغل شہزادوں کا انجام “رنگون جیل” اور قوم کی دو سو سالہ غلامی نہ بھولیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).