بازی پلٹ چکی، پانسہ اب عوام کے ہاتھ میں ہے


دہشت گردی کی مذمت کر کر کے الفاظ اب اپنی تاثیر کھو چکے ہیں۔ ہارون بلور کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت کی جتنی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔ بلور خاندان نے پہلے بشیر بلور کو دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنتے دیکھا اور اب ہارون بلور کی زندگی کا چراغ گل ہوتے دیکھا۔ اس بزدلانہ حملے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کو پچھلے انتخابات کی مانند اس بار بھی انتخابی مہم نہ چلانے کا واشگاف پیغام دیا جا چکا ہے۔ اس واقمے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کیلئے بھی انتخابی مہم چلانا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔ اس سے پہلے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ دہشت گردی میں افغانی طالبان نیٹ ورک یا بیرونی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں ایک سوال کا جواب مقتدر قوتوں کو دینا ہو گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انتخابات کے قریب دہشت گردی کے حملے اور قاتلانہ حملے صرف اسٹیبلشمنٹ مخالف قوتوں پر ہوتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے “لاڈلے” معجزانہ طور پر ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے سے محفوظ رہتے ہیں۔

سوال تو منصف کی کرسی پر بیٹھنے والوں سے بھی کرنا چاہیے جنہوں نے یہ کہہ کر سیاستدانوں سے سیکیورٹی واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گرد حملوں سے کچھ نہیں ہوتا ایک دن سب کو لوٹ کے جانا ہے۔ آج انہیں ہارون بلور کی بیوہ اور بچوں کے سامنے کھڑا کرنا چائیے تا کہ انہیں احساس ہو سکے کہ دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان بھی جیتے جی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ خود بیسیوں گاڑیوں کے پروٹوکول اور محافظوں کے حصار میں پھرنے والے اگر سیاسی رہنماؤں کی جان کو قیمتی نہیں سمجھتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔

ہارون بلور کے قتل کی فرد جرم ان تمام قوتوں کے خلاف بھی دائر ہونی چائیے جو گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کالعدم تنظیموں کو میدان سیاست میں بھی لانچ کرنے کا گھناونا فعل سرانجام دیتے ہیں۔ ہارون بلور کی مانند پاکستان پر بھی خود کش حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا سبب وہ قوتیں ہیں جو محض اپنی اجارہ داری کیلئے سیاسی انجئینرنگ کر کے وہ پالیسیاں بناتی ہیں جو اپنے ہی وطن کے بچے کو نگل جاتی ہیں۔ یہ تکلیف اب برداشت سے باہر ہے۔ ہم خود اپنے قتل ہونے کا تماشہ کب تک دیکھیں اور یہ جانتے ہوئے کہ ہمارا ریاستی بیانیہ سراسر غلط ترجیحات پر مبنی ہے کب تلک ہم ان از کار رفتہ پالیسیوں کے اسیر بنے رہیں ؟

اب اعصاب جواب دے چکے ہیں اور اب محض مرنے والوں کو شہید کا لقب دیکر موت کو گلوریفائی کرنے سے بھی چشم تماشا اکتا چکی ہے۔ ایک طرف شدت پسندی ختم کرنے کے کھوکھلے نعرے ہیں اور دوسری جانب کمال بے حسی ہے کہ راو انوار جیسے قاتل درندے کو جے آئی ٹی رپورٹ میں جرم ثابت ہونے کے باوجود بھی ضمانت مل جاتی ہے اور سیاسی مخالفین کو دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر بھی ضمانت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ راؤ انوار کی ضمانت اس ملک کے قانونی نظام پر ایک تھپڑ کی مانند ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ راو انوار جیسا اجرتی قاتل کونسی پس پشت قوتوں کے “ہٹ مین ” کے طور پر کام کرتا تھا۔ یعنی ایک اجرتی قاتل محض پس پشت قوتوں کا فیورٹ ہونے کے باعث قانون کو جوتے کی نوک تلے روند سکتا ہے جب کہ تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہونے والا شخص محض نادیدہ قوتوں کی ناراضگی کے سبب یک طرفہ اور انتقامی کارروائی کے طور پر قانون کے شکنجے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور باجوہ صاحب نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران اپنے ادارے پر سیاسی سرگرمیوں سے متعلقہ سوالات کی وضاحت دینے خاصا وقت صرف کیا۔ کاش حالات ایسے شفاف ہوتے کہ ان کے ادارے کو ایسی وضاحت دینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

ساڑھے تین لاکھ فوج کی پولنگ سٹیشنوں پر تعیناتی ایک غیر معمولی اقدام ہے خاص طور پر ایسی صورت میں کہ ایک اہم سیاسی جماعت کو اس تعیناتی پر خدشات ہیں۔ راولپنڈی میں مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی گرفتاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقتدر حلقے نواز شریف اور مریم نواز کی پاکستان آمد سے خائف ہیں۔ تیرہ جولائی کو لاہور میں اگر عوام کی بڑی تعداد نواز شریف اور مریم نواز کا استقبال کرنے لاہور ائیر پورٹ آن پہنچی تو صورت حال ایک نئی شکل اختیار کر لے گی۔ بھلے ہی نواز شریف اور مریم کو جہاز کے اندر سے ہی گرفتار کر کےاڈیالہ جیل بھیج دیا جائے اگر کارکن بڑی تعداد میں لاہور ائیرپورٹ پہنچ گئے تو احتجاج کا سلسلہ روکنا مشکل ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مقتدر قوتیں اس بات سے انجان تھیں کہ پنجاب کے عوام کا موڈ تبدیل ہو چکا ہے؟ انتخابات کا عمل مشتبہ بن چکا ہے۔ اگر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو شدید بحران پیدا ہو جائے گا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اب عمران خان یا سنجرانی ٹائپ کٹھ پتلیوں کو وزارت عظمی پر فائز نہیں کروایا جا سکتا۔ یہ پرانا کھیل ہے لیکن اب کی بار اس کھیل کا نتیجہ مہروں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ عوام کی ایک کثیر تعداد ریاستی اداروں کو انتخابات میں ایک فریق سمجھتی ہے۔ اگلے چند ماہ میں ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بنا ناممکن ہے۔ یہ کھیل اب پرانے کھلاڑیوں کے اختیار سے باہر نکل چکا ہے۔ پانسہ عوام کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ ایسے میں کسی سیاسی بحران کا نتیجہ وطن عزیز کیلئے ہرگز سودمند نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).