آج انگلی کے درد نے بہت کچھ سکھا دیا۔۔۔


آج بات ”میں“ میں ہوگی ”میں“ میں بات کرنے کا مقصد صرف تعریف ہی نہیں ہوتا بلکہ جب کبھی بات اپنی ذات کے لئے ہو تو ”میں“ بطورِ تعارف استعمال کیا جاتا ہے میرے بہت سے دوستوں کو اس ”میں“ سے بہت چڑ ہے اسی لیے کچھ وضاحت دینا پڑی۔

اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں دو دن پہلے میری انگلی پر زخم ہوا شروع شروع میں تو زخم معمولی سا لگا مگر جوں جوں وقت گزرتا رہا زخم گہرا ہوتا گیا اور درد کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا گیا بات یہاں تک آ پہنچی کہ انگلی کے درد کی شدت سے جسم کے تمام اعضاء تھوڑی دیر کے لئے مفلوج سے ہوگئے دماغ کی تمام تر توجہ انگلی پر مبذول رہی، آنکھیں بھی درد کی شدت میں گرفتار، منہ کا ذائقہ بھی درد کی شدت سے بے مزہ ہوگیا آخرکار ڈاکٹر کے ہاں پیش ہوکر اس درد سے جان چھڑا لی گئی اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا۔

میرا موضوع ہرگز بھی انگلی کا درد نہیں انگلی کے درد سے کیا سیکھا اصل موضوع یہی ہے جس پر تحریر مقصود ہے۔

پہلے پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا تو میں اس ظلم کیخلاف ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں اپنی حیثیت کیمطابق آواز اٹھاتا۔ مگر یہ عمل میرے کچھ دوستوں کی طبیعت پر بہت گراں گزرا۔ میرے دوست مجھے سمجھانے کی کوشش بھی کرتے رہے اور صاف الفاظ میں تضحیکی جملوں کے ذریعے منع بھی کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں نا اکثریت درست ہوتی ہے میں اسی اصول پر کہ اگر اتنے سارے دوست مجھے غلط کہہ رہے ہیں تو شاید میں ہی غلط ہوں۔ خود کو غلط سمجھتے ہوئے اور دوستوں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنی تحریر کا دائرہ کم کردیا۔

اب دنیا کو چھوڑ کر ایشیائی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر کبھی کبھار لکھتا رہا۔ اس بار بھی دوستوں کا وہی رویہ۔ دوست کہنے لگے یہ آپ کے مسائل ہیں ہی نہیں پہلے اپنے ملک کے مسائل پر لکھوں۔ اپنے ملک کے مسائل اتنے ہیں اور تم چلے ہو دوسروں کے مسائل سلجھانے۔ اس مرتبہ بھی میں خود کو غلط تصور کرتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔

اسکے بعد میں نے اپنے وطن کے مسائل ڈیمز، آبی قلت اور کرپشن وغیرہ جیسے اہم مسائل پر لکھنا شروع کیا۔ اب کی بار بھی دوستوں کا وہی رویہ کہ پہلے اپنے صوبے کے مسائل پر تو لکھیں۔ یہ ڈیمز وغیرہ بلوچستان میں تو نہیں بن رہے آپ اس مہم کی اتنی تشہیر کیوں کر رہے ہیں؟ میں خود کو غلط سمجھتے ہوئے اپنے صوبے کے مسائل پر بات کرنے لگا۔ پھر وہی رویہ کہ پہلے اپنے شہر، اپنے حلقے کے مسائل پر بات کریں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ آخر دوست چاہتے کیا ہیں؟ آخرکار ایک بات سمجھ آگئی کہ دوست اس وقت تک مجھ سے کبھی بھی خوش ہو ہی نہیں سکتے جب تک میں ان کی جماعت، ان کے قائدین، ان کے من پسند سیاستدانوں، ان کی سوچ اور نظریات کو درست نہیں کہتا۔ جب تک ان کی سوچ اور نظریات کی حمایت نہیں کرتا تب تک میرے دوست کبھی بھی مجھ سے خوش نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کی نظر میں اہمیت صرف اسی بات کی ہے جس میں ان کے نظریات یا مفادات کی بات ہو۔ اس کے علاوہ چاہے بات کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو ان کی نظر میں اُس بات کی کوئی اہمیت ہو ہی نہیں سکتی۔

ابھی اِنہی باتوں میں الجھا ہوا تھا کہ انگلی کے درد نے ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرا دی۔ جب درد شدت اختیار کرچکا تو جسم کے تمام اعضاء جو بظاہر انگلی کے درد کو ختم تو نہیں کرسکتے تھے۔ مگر جسم کے باقی اعضاء نے ایک کام ضرور کیا کہ انگلی کے درد میں برابر کے شریک ہوئے۔ اور انگلی کو یہ احساس دلایا کہ ہم تمہارا درد کم تو نہیں کرسکتے۔ مگر ہاں تمہارے درد میں شریک ہوکر بے چین ضرور ہوسکتے ہیں۔ تب مجھے وہ حدیث مبارکہ یاد آئی جس کا مفہوم ہے کہ ” مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے کسی حصے میں بھی تکلیف ہو تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے“۔

یہ نہیں ہوتا کہ دماغ پاؤں سے کہے کہ تم کیوں بے چین ہو؟ درد تو انگلی میں ہے تم اپنے کام سے کام رکھو۔ یا دماغ ہاتھوں سے کہے کہ تم کیوں بے چین ہو؟ درد تو انگلی میں ہے۔ دماغ دل سے بھی نہیں کہتا کہ تجھے تو کچھ نہیں ہوا تیری دھڑکن کین رفتار تیز کیوں ہورہی ہے؟ دماغ زبان سے بھی مخاطب نہیں ہوتا کہ تو کیوں بے مزہ ہوگئی ہو؟ دماغ آنکھوں سے بھی نہیں کہتا کہ تم اپنا برسنا بند کرو۔ دماغ سانسوں سے بھی کچھ نہیں کہتا کہ تم کیوں پھول رہیں ہوں؟ بلکہ دماغ جسم کے تمام اعضاء تک فورا یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ تیار ہوجاؤ۔ تم جسمِ واحد کے اعضاء ہو تمہارا ایک بھائی تکلیف میں مبتلا ہے۔ اب تم سب کو اس کیتکلیف میں برابر شریک ہونا ہے۔ پھر جسم کے تمام اعضاء تھوڑا تھوڑا درد اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔
آج انگلی کے درد نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا۔ کہ غلط تم نہیں تھے غلط تو تمہارے دوست ہیں۔ جو تمہیں اپنے کام سے روکنا چاہتے ہیں تم اپنا کام جاری رکھو اسی میں بہتری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).