بھارتی ڈراموں میں ناظرین کا تصور


خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی مگر 2007ء تک میں ڈش، کیبل وغیرہ سے محفوظ رہا، ہاں ہمارے ہاں بھارتی فلمیں ضرور دیکھی جاتی تھیں، اولاً وی سی آر پر اور بعد ازاں سی ڈی پر مگر جب کیبل لگا تو بھارت کی دیگر میڈیا پروڈکٹس یعنی گیم شوز، موسیقی اور رقص کے مقابلے اور ڈراموں سے پالا پڑا، ان سب ہی چیزوں میں سب سے عجیب شے بھارتی ڈرامے تھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ چیز ہماری پاکستانی عوام کو ہضم بھی کیسے ہوئی کہ مقبول ہو گئی؟ مگر ان ڈراموں میں آخر مسئلہ ہے کیا؟

سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ قاری کے تمام نقائص قاری کے تصور سے پیدا ہوتے ہیں، وہ مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بعض لکھاری یوں لکھتے ہیں ’’جرمنی کے مقبول شاعر گوئٹے‘‘ یعنی لکھنے والے کا خیال ہے کہ قاری کو یہ بھی نہیں معلوم کہ گوئٹے جرمن تھا اور گوئٹے مشہور تھا، یہ ہے قاری کا پست تصور۔ یہ بات صرف و محض قاری تک ہی محدود نہیں، ہماری ایک شعبہ نفسیات کی استانی صاحبہ ہمیں پڑھاتے ہوئے یہود کے جنگ عظیم دوئم کے دور کا احوال بیان کرتے ہوئے بولیں کہ ’’ہٹلر کے بارے میں آپ لوگوں کو معلوم ہو گا ہی؟‘‘ یعنی متحرمہ کے خیال میں ان کے سامنے بیٹھے ماسٹرز کے طلبہ دنیا سے اور تاریخ انسانی سے اس قدر بے خبر ہوں گے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ ہٹلر کون تھا۔

میرے ایک خالہ زاد برادر یہی کام انگریزی فلموں کے دوران کرنے لگتے، یعنی کسی خود کار نظام سے وہ اچانک سب کو مخاطب کر کے سین سمجھانے لگتے، اس لئے کہ شاید دوسروں کو تو انگریزی سمجھ آتی ہی نہ ہو گی۔ یہی دوسروں کا پست تصور، چاہے قاری کا ہو یا کسی کا بھی، انسان سے ابلاغ میں اغلاط کراتا ہے، بھارتی ڈراموں کے لکھاریوں اور بنانے والوں کے ذہن میں ناظرین کا کیا تصور ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہم کو اپنا نمونہ (سیمپل) واضح کرنا ہو گا، اس لئے کہ یہ تحقیق کا مروج اصول ہے، بھارتی ٹی وی چینل سونی SAB کی اگر بات کی جائے جو کہ ایک مزاحیہ چینل ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس چینل پر ڈرامے لکھنے والوں کے ذہن میں دراصل ناظرین ذہنی طور پر مفلوج لوگ ہیں، ایسے مفلوج جو کہانی میں ذرا سا بھی پیچ و خم سمجھ ہی نہیں سکتے، یہ ایسے ناظرین کا تصور ہے کہ جن کے دماغ میں 386 یا 8088 کے پروسیسر لگے ہیں اور 2 میگابائٹ ریم ہے۔

اگر کسی ڈرامے میں کسی کردار کو کوئی پرانا منظر بیان کرنا ہوتا ہے تو وہ پورا منظر دوبارہ دکھایا جاتا ہے، اسی طرح کہانی اتنی سادہ، اتنی بیسک ہوتی ہے کہ اس سے ہزار گنا زیادہ بالیدہ اور پر پیچ تو ڈورے مون کارٹون کی کہانی ہوتی ہے۔ اس چینل کے ڈراموں میں کردار نگاری اس قدر بودی ہے کہ ایک کردار بس ایک ہی پر سونا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ یہ دراصل ذہنی معذوروں اور ڈھائی سال کے بچوں کے لئے بنے ہوئے ڈرامے ہیں۔ یہ چینل سونی بی مزاحیہ چینل ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس چینل پر آنے والا مزاح بہت ہی پسماندہ ہے، ویسے بھارتی فلموں میں بھی مزاح پاریش راول وغیرہ کی آمد سے قبل پسماندہ ہی تھا، اس دعوے پر شک ہو تو محمود ، جانی واکر اور قادر خان وغیر ہ کی مزاحیہ اداکاری دیکھ لیجئے۔

اب ذرا بھارت کے سنجیدہ ڈراموں کی طرف آئیے، ایکتا کپور نے جو ڈرامے بنائے وہ بھی نمونے کے طور پر موجود ہیں۔ یہ ڈرامے انتہائی سلو ٹیمپو اور بلاوجہ کی طوالت لئے ہوئے ہوتے ہیں، کہانی انتہائی بنیادی بھونڈی اور اتھلی قسم کی ہوتی ہے، ہر ڈرامے میں کردار ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں، یہ سازشیں بھی بے حد بھونڈی اور خام قسم کی ہوتی ہیں، ان ڈراموں میں بھی ناظرین کا تصور صریحاً کند ذہن بلکہ ذہنی معذور لوگوں کا ہے، یہ ڈرامے اپنی غیر معمولی طوالت میں بھی بے مثال ہیں۔

پھر چند اور ڈرامے ہیں جو ایکتا کپور کے نہیں ہیں (جیسے آدھے ادھورے یا قلفی کمار باجے والا) یہ ڈرامے بھی بے حد اتھلی اور سادہ کہانیاں رکھتے ہیں اور ہر ہر بات ان ڈراموں میں بھی بار بار اس طرح دہرائی جاتی ہے کہ جیسے ناظرین کو گجنی فلم کا عامر خان ہی سمجھ لیا گیا ہو کہ جسے پندرہ منٹ بعد کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔

بھارت کے تقریباً تمام ہی ڈراموں میں اداکاری کا معیار بالکل پست ہوتا ہے، یہ اداکاری بالکل کسی کالج میں منعقد تھیٹر کی سطح کی ہوتی ہے، پھر ہر ہر ڈرامہ کسی نہ کسی فلم کی پرچھائیں ہے، ڈراموں کے نام تک بہت مرتبہ فلموں سے ماخوذ ہوتے ہیں (جیسے سجن رے جھوٹ مت بولو) اور بعض ڈرامے پورے پورے کسی فلم کے ایک چھوٹے سے سیکوینس کو پھیلا کر بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً گجنی فلم کا ہیرو اپنی امارت اپنی ہیروئن سے چھپاتا ہے، یہ سیکوینس شاید اس 2 یا ڈھائی گھنٹے کی فلم کا 20 فیصد حصہ ہو گا۔ اس صورت حال کو لے کر ایک پورا ڈرامہ ’’سجن رے جھوٹ مت بولو‘‘ کے عنوان سے بنا دیا گیا۔ اب فلم میں جو چیز 20 منٹ، آدھے گھنٹے تک مناسب معلوم ہوتی تھی وہ اتنے طویل ڈرامے میں زہر ہلاہل معلوم ہو رہی ہے، پھر بھونڈی اداکاری اور ہر ہر قسط میں انہی سیکوینس کا دہرایا جانا بالکل کسی ہذیان کی طرح معلوم ہوتا ہے۔

پھر عجیب بات یہ کہ اکثر ڈراموں میں فلمی گانے بھی گائے جاتے ہیں، کبھی پوری پوری فلمی کاسٹ اپنی آنے والی فلم کی پروموشن کے لئے آ جاتی ہے۔ یعنی یہ ڈرامے دراصل ڈرامے نہیں بل بورڈ ہیں، دراصل بھارتی ڈرامے نے خود کو ہمیشہ سے قومی بھارتی فلمی صنعت کا ایک ضمیمہ سمجھا ہے، ان ڈراموں کے خالقوں نے ہمیشہ خود کو فلم سازوں سے فروتر کوئی مخلوق سمجھا ہے اور اپنے فن کو فلم سے بہت گرا ہوا کچھ تصور کر رکھا ہے اور اپنے ناظر کو تو انسان کبھی سمجھا ہی نہیں ، حالانکہ ڈرامہ اگر اعلیٰ ہو تو فلم کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

پاکستان کے کلاسیکل ڈرامے اس کی اعلیٰ مثال ہیں، کسی بھی میڈیم میں کرامات کی جا سکتی ہیں، مگر اس کے لئے سب سے پہلے اپنا اور پھر قاری / ناظر کا تصور بلند کرنے کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے کمرشل سینما اور کمرشل ڈراموں میں یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ ناظرین نرے احمق، کند ذہن لوگ ہیں جن کے لئے کوئی ذرا سی بھی پرپیچ، ذرا سی بھی فلسفیانہ بات ہضم کرنا ناممکن ہے، پھر ڈرامے بنانے والے لوگ وہ ہیں کہ جنھوں نے عالمی ادب غلطی سے بھی نہیں پڑھا، انھوں نے بس فلمیں دیکھی ہیں، اب یہ صرف اور صرف کچرا ہی تیار کر کے چینلوں پر پھینکتے ہیں تو عوام اس میں سے ہی کچھ نہ کچھ دیکھنے پر مجبور ہیں۔

پاکستانی ڈرامہ اپنے ماضی سے ہزار گنا زوال کے باوجود بھی بھارتی ڈرامے سے بدرجہ بہتر ہے، اسی لئے بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد پاکستانی ڈرامے دیکھنے لگی ہے، خود بعض بھارتی چینلوں پر پاکستانی ڈرامے آتے ہیں، اس کے علاوہ بھارت میں ترکی ٹ ڈرامے بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ ناظرین کا پست تصور بہرحال وہ بھی نہیں رکھتے۔

اب آ جائیے اس طبقے کی طرف جو بھارت کے یہ ڈرامے کے نام پر مذاق دیکھتا ہے، آخر یہ کون لوگ ہیں اور ان کو اس کچرے کی لت کیوں لگ گئی ہے؟ معذرت کے ساتھ ایسے لوگ اصل میں وہی ہیں جن کو ذہن میں رکھ کر یہ ڈرامے تخلیق کئے گئے ہیں، یعنی ذہنی معذور۔ دراصل ادب یا فن کی خام ترین، ادنی ترین شکلوں کو وہی لوگ پسند کرتے ہیں جن کا پالا کبھی اس سے برتر کسی ادبی یا فنی شے سے پڑا ہی نہ ہو، ایسے اذہان اپنی نشوونما میں نامکمل رہ جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی ادب و فن سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں مگر ایک نوع کے ٹرک آرٹ سے آگے کی کسی بھی شے کی تفہیم یا تحسین ان میں رہتی ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی اعلیٰ ذوق کی تربیت بڑی مشکل سے ہوتی ہے، اس لئے جو لوگ اس خام مال پر ہی پلے ہیں اور بہتر ذہانت کے حامل بھی نہیں ان کے لئے یہ ہی واحد ممکنہ اینٹرٹینمنٹ ہے اور بس۔

ناظرین کا پست تصور رکھنے والے ڈرامہ نگاروں نے دراصل ناظرین کا ذوق، ان کا تخیل پست کر دیا ہے، یہ ڈرامہ نگار نہ تو اپنا ہی تصور ذات بہتر بنا پاتے ہیں اور نتیجتاً ناظر ان کی نظر میں ذہنی پسماندہ ہی رہتا ہے اور ان کے کچرے پر جو اذہان پلتے ہیں وہ رفتہ رفتہ ذہنی پسماندہ ہی بن جاتے ہیں۔ یعنی یوں زہر پلا پلا کر ان ڈرامہ نگاروں نے ایک طبقے کو وہی بنا دیا ہے جو انھوں نے ناظرین کا تصور کررکھا تھا، واقعی پست تصور بڑی تابکار قوت ہوتی ہے، یہ تباہی لا سکتا ہے، یہ تباہی لا چکا ہے، اگر شک ہے تو ان لوگوں کو دیکھئے جو یہ بھارت ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).